الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
شاعر کہہ رہا ہے کہ جب تم سخت آزمائش کے شکار ہوں، توسورۂ الم نشرح میں غور وفکر کرو کہ اس میں دوآسانیوں کے بیچ ایک آزمائش ہے، جب تم غور و فکر کروگے تو خوش ہوجاؤگے، یعنی ایک آزمائش اپنے ساتھ دوآسانیاں لے آتی ہیں،اس لیے آدمی کو چاہئے کہ بوقتِ آزمائش اپنے پایۂ ثبات میں جنبش نہ آنے دے۔مثال جزء رابع : کسی شخص نے دوگواہوں کے سامنے کسی مجلس میں ایک ہزارروپئے کا اقرار کیا، جو چیک کے ساتھ مقید ہے، پھریہی شخص دوسرے دوگواہوں کی موجودگی میں ،دوسری مجلس میں،ایسے ایک ہزارروپئے کا اقرار کرے جو چیک کے ساتھ مقید نہیں ہے، تو اس پر دو ہزارروپئے لازم ہوں گے۔ٌقاعدہ(۳۶۱): {نِیَّۃُ الإقَامَۃِ فِي غَیْرِ مَوْضِعِہَا ہَدْرٌ} ترجمہ: غیر محلِ اقامت میں، اقامت کی نیت کرنا باطل ہے۔ (شرح السیر الکبیر:۱/۱۰۲، باب الشہید وما یصنع بہ ، قواعد الفقہ:ص۱۳۵، القاعدۃ:۳۸۱)مثال: کوئی کشتی نہر کے کنارہ پر کھڑی ہو، بندھی ہوئی نہ ہو اور کوئی شخص اسی کشتی میں پندرہ روز اقامت کی نیت کرلے تو وہ مقیم نہیں ہوگا۔ٌقاعدہ(۳۶۲): {نِیَّۃُ تَخْصِیْصِ الْعَامِّ یَصِحُّ دِیَانَۃً لا قَضَائً} ترجمہ: تخصیصِ عام کی نیت دیانتاً صحیح ہے،نہ کہ قضاء ً۔ (قواعد الفقہ:ص۱۳۵، القاعدۃ:۳۸۲،شرح السیر)مثال: کسی شخص نے قسم کھائی کہ وہ کھانا نہیں کھائے گا،یاکپڑا نہیں پہنے گا،یاشربت نہیں پئے گا، اور وہ اپنی اس قسم سے کسی خاص قسم کے کھانے،یا کسی خاص قسم کے کپڑے، یا کسی خاص قسم کے مشروب کی نیت کرے، تودیانتاً اس کی تصدیق ہوگی، قضاء اً نہیں ، کیونکہ یہ نیت خلافِ ظاہر ہے، اور قضاء ً خلافِ ظاہر کی تصدیق نہیں ہوتی، لہذا وہ کسی بھی قسم کے کھانا کھانے ، کپڑا پہننے اور مشروب کے پینے سے حانث ہوگا۔قاعدہ(۳۶۳): {اَلْوَاجِبُ لا یُتْرَکُ إلا بِالْوَاجِبِ} ترجمہ: واجب ، واجب ہی کے ذریعہ ترک کیا جائے گا۔ (الأشباہ والنظائر لإبن الملقن:۱/۳۲۰ ، الأشباہ والنظائر للسیوطي:۱/۳۱۶، موسوعۃ القواعد الفقہیۃ:۱۲/۱۳۸)