الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
لیکن’’ تنویر الابصار‘‘ میں مذکور ہے : لو کان عدلاً ففسق بأخذہا استحق العزل ‘‘ یعنی اگر کوئی قاضی بوقتِ تقلیدِ قضا عادل تھا پھر اخذِ رشوت کے سبب فاسق ہوا، تو وہ وجوباًمستحقِ عزل ہوگااور یہی قول مفتٰی بہ ہے۔ (تنویر مع الدر والرد:۸/۳۶)قاعدہ(۶۷): {اَلْبِنَائُ عَلَی الظَّاہِرِ وَاجِبٌ حَتَّی لَمْ یَتَبَیَّنْ خِلَافُہٗ} ترجمہ: ظاہر پر بنا، واجب ہے، جب تک اس کے خلاف ظاہر نہ ہو۔ (شرح السیر الکبیر:۱/۲۱۱، باب الأمان، ۴/۱۴۴، باب من یکرہ قتلہ من أہل الحرب ومن لا یکرہ ، قواعد الفقہ:ص۶۵، القاعدۃ:۶۲)مثال۱: کوئی کافر حربی اس حال میں آیا کہ اس کے ساتھ ہتھیار ہو ، مگر اس کی ظاہری حالت ایسی نہ ہوکہ وہ لڑائی کا ارادہ رکھتا ہے اور وہ امان کے لئے آ واز دے تو وہ آمن ہوگا اور اگر یہی کافر حربی اپنی تلوار کو میان سے کھینچ کر مسلمانوں کی طرف بڑھے اور امان کے لئے آواز دے تو وہ آمن نہیں ہوگا، بلکہ وہ مسلمانوں کا غلام ہوگا، کیوںکہ اس کی ظاہری حالت یہ ہے کہ وہ مقابل بن کر آیا ہے۔مثال۲: کسی شخص نے کسی کو عمداً زخمی کردیا، اور وہ زخمی شخص برابر بستر مرگ پر پڑا رہا حتی کہ اسی حالت میں اس کا انتقال ہوگیا ، تو جارح پر قصاص لازم ہوگا، کیوں کہ ظاہر یہی ہے کہ یہی زخم اس کے فوت ہونے کا سبب بنا، ہاں اگر وہ زخمی صحت یاب ہوگیا پھر اس کا انتقال ہوا تو اب جارح پر قصاص لازم نہیں ہوگا۔ (ہدایہ:۲/۵۵۰، باب ما یوجب القصاص وما لا یوجبہ)مثال۳: حضرت اسامہ بن زیدؓ نے میدانِ جنگ میں ایک کافر پر حملہ کردیا، اس نے فوراً’’لا الہ الا اللہ‘‘ پڑھ دیا، مگر حضرت اسامہؓ نے اسے قتل کردیا، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوئی تو حضرت اسامہ نے کہا کہ جان بچانے کی خاطر اس نے کلمہ پڑھا تھا نہ کہ صدقِ دل سے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے اس کے دل کو چیر کر دیکھ لیا تھا، کہ صدقِ دل سے پڑھا ہے یا خوف سے؟معلوم ہوا کہ: البناء علی الظاہر واجب الخ ۔ (بخاری شریف:۲/۶۱۲، باب بعث النبي صلی اللہ علیہ وسلم أسامۃ بن زید إلی الحرقات من جہینۃ ، مسلم شریف:۱/۶۷،۶۸، باب تحریم قتل الکافر بعد قولہ: لا إلہ إلا اللہ ، فتاوی رحیمیہ:۲/۱۹)