الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
مثال: کسی شخص نے قسم کھائی کہ وہ انڈا نہیں کھائے گا ،تو اس کی یہ قسم پرندے کے انڈے پر محمول ہوگی نہ کہ مچھلی کے۔نوٹ: یہ اس وقت ہے جب کہ حالف کے علاقہ میں انڈا نہ کھانے کی قسم میں پرندے کا انڈا ہی متعارف ہو، لیکن جب کسی علاقہ میں انڈے سے مرغی کا انڈا متعارف ہو، تو اس کی قسم محض اسی پر محمول ہوگی، اور دیگر پرندوں کے انڈوں کو کھانے سے حانث ہوکر کفارۂ یمین واجب نہ ہوگا۔(۱۰){إنَّ الْحَادِثَۃَ إذَا وَقَعَتْ وَلَمْ یَجِدِ الْمَسْئُوْلُ فِیْہَا جَوَاباً وَنَظِیْراً فِي کُتُبِ أصْحَابِنَا فَإنَّہٗ یَنْبَغِي أنْ یَسْتَنْبِطَ جَوَابَہَا مِنْ غَیْرِہَا إمَّا مِنَ الْکِتَابِ أوْ مِنَ السُّنَّۃِ أوْ غَیْرِ ذٰلِکَ مِمَّا ہُوَ الْأقْویٰ فَالْأقْویٰ فَإنَّہٗ لا یَعْدُوْ حُکْمُ ہٰذِہٖ الْأصُوْلَ} ترجمہ: اصل یہ ہے کہ جب کوئی نیا مسئلہ درپیش ہو اور مسئول اس سلسلہ میں ہمارے اصحاب کی کتابوں میں کوئی جواب نہ پائے، اور نہ اس مسئلہ کی کوئی نظیر ہماری کتابوں میں موجود ہو تو اسے چاہئے کہ اس مسئلہ کا جواب ہماری کتابوں کے ماسوا سے مستنبط کرے، یا تو کتاب اللہ ، سنت رسول،یا اجماعِ امت سے ’’الأقویٰ فالأقویٰ‘‘، (ترتیب کا خیال رکھیں)،کیوںکہ کوئی حکم ان اصول سے متجاوز نہیں ہوتا۔مثال: جتنے مسائلِ فقہیہ کتبِ فقہ میں موجود ہیں، وہ سب کے سب ان ہی اصول سے مستخرج ہیں اور نئے مسائل بھی ان ہی اصول سے مستخرج ہوںگے، فتامل!(۱۱){اَلأَصْلُ أَنَّ الْحَدِیْثَ إذَا وَرَدَ عَنِ الصَّحَابِي مُخَالِفًا لِقَوْلِ أصْحَابِنَا فَإنْ کَانَ لَا یَصِحُّ کَفَانَا مُؤُنَۃُ جَوَابِہٖ وَإنْ کَانَ صَحِیْحًا فِي مَوْرِدِہٖ فَقَدْ سَبَقَ ذِکْرُ أقْسَامِہٖ إلٰی أنَّ أحْسَنَ الْوُجُوْہِ وَأبْعَدَہَا عَنِ الشُّبْہِ أنَّہٗ إذَا وَرَدَ حَدِیْثُ الصَّحَابِي فِي غَیْرِ مَوْضَعِ الإجْمَاعِ أنْ یُحْمَلَ عَلَی التَّأوِیْلِ أوِ الْمُعَارَضَۃِ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ صَحَابِيٍ مِثْلِہٖ}