الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
وجہ ثانی : ان قواعد کا بڑا حصہ مستثنیات سے خالی نہیں، تو کبھی یہ بھی ہوسکتا ہے، کہ جس فرع ومسئلہ کا حکم زیر بحث ہے وہ ان ہی مستثنیات میں داخل ہو، اس لیے ان قواعد کی اساس پر بنائِ حکم جائز نہیں، اور نہ ہی ان پر احکام فروع کی تخریج جائز ہے، لیکن جب مسائلِ فقہیہ مدونہ پر، مسائلِ جدیدہ و حادثہ کو قیاس کرکے ان کے احکام کی تخریج ہوگی تو ان قواعد کی حیثیت دلائلِ شرعیہ کے لیے ایسے شواہد کی ہوگی، جن سے تخریجِ احکام میں ایک گونہ انسیت حاصل ہو سکتی ہے۔ مگر مطلقاً یہ کہنا کہ قواعد پر بناء حکم جائز نہیں، صحیح معلوم نہیں ہوتا، اور وہ اس لیے کہ تمام قواعد، اصول و مصدر کے لحاظ سے یکساں نہیں بلکہ مختلف ہیں،لہٰذا جن قواعد کا مصدر کتاب اللہ یا سنت رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) ہو، یا جو قواعد کتاب اللہ، یا سنت رسول اللہ کی دلائلِ واضحہ پر مبنی ہوں، یا کسی ایسی دلیل ِشرعی پر مبنی ہوں جو علماء شریعت کے نزدیک معتبر ہے، تو ان کے ذریعہ استنباطِ احکام، اصدارِ فتاویٰ اور ان کے مطابق الزامِ قضاء جائز ہوگا۔ علامہ ابن نجیم اور علامہ زرقا ء کی جو تحریر اوپر گذری کہ قواعد پر بناء حکم جائز نہیں، یا مقتضائے قواعد کے مطابق فتویٰ دینا صحیح نہیں، ان کی یہ بات عام قواعد کے متعلق ہے، جن قواعد کا مصدر کتاب اللہ یا سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم )یا کوئی معتبر دلیل شرعی ہو وہ اس عام سے خارج ہیں اوران پر بنا ء حکم جائز ہے۔ واللہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم واحکم ۲۳؍ربیع الاول ،۱۴۳۲ھ