الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
قاعدہ(۲۴۴): {کُلُّ عَیْبٍ حَدَثَ قَبْلَ الْقَبْضِ فَہُوَ مِنْ ضَمَانِ الْبَائِعِ} ترجمہ: ہر وہ عیب جو قبضہ سے پہلے پیدا ہو، وہ بائع کے ضمان میں ہوگا۔ (جمہرۃ:۲/۸۴۱، رقم:۱۵۸۳) مثال: اگرکسی شخص نے شوروم جاکر الیکٹرانک سامان مثلاً : فریج، واشنگ مشین، پنکھا ، کولر، گیزر اور پریس وغیرہ کا سودا کیا، ابھی ان چیزوں پر قبضہ نہیں کیا ، اور شوروم کے مالک سے کہا کہ آپ یہ چیزیں مجھے چیک کرکے دیدیں، کہ ان میں کوئی عیب ونقص تو نہیں، اس کے کہنے پر اس نے ان چیزوں کو چیک کرنا شروع کیا ، اور بوقتِ چیکنگ ان اشیاء میں کوئی عیب ظاہر ہوا ، یا چیک کرتے وقت کوئی ٹوٹ پھوٹ ہوگئی ، تو یہ نقصان شوروم کے مالک کا سمجھا جائے گا، نہ کہ خریدار کا، اور خریدار کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ ان چیزوں کو لے ، یا رد کردے۔ (الہدایۃ: ۳/۴۲)(رحمانی)قاعدہ(۲۴۵): {کُلُّ قُرْبَۃٍ کَانَتْ عَلٰی سَبِیْلِ الإبَاحَۃِ اسْتَویٰ فِیْہِ الْغَنِيُّ وَالْفَقِیْرُ} ترجمہ: ہر وہ عبادت جو بطور اباحت ثابت ہو، اس میں امیر اور فقیر دونوں برابر ہیں۔ (شرح السیر الکبیر:۵/۱۳۲، باب الحبیس في سبیل اللہ ، قواعد الفقہ:ص۱۰۱، القاعدۃ:۲۲۹) مثال: کسی آدمی نے اپنے بہت سے گھوڑے جہاد کے لئے وقف کئے ،اور کسی آدمی کو ان گھوڑوں کو مجاہدین کے مابین تقسیم کے لئے وکیل بنایا تو وکیل کے لئے جائز ہے کہ وہ ان گھوڑوں کو مجاہدین کے درمیان تقسیم کرے، خواہ مجاہدین مالدار ہوں یا فقراء ، کیوںکہ یہ اباحت (مباح کر دینا) ہے، تملیک(مالک بنانا) نہیں ہے۔قاعدہ(۲۴۶): {کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ نَفْعًا فَہُوَ رِبًا حَرَامٌ} ترجمہ: ہر وہ قرض جو نفع کو کھینچ لائے، وہ ربوا حرام ہے۔ ( قواعد الفقہ : ص۱۰۲، القاعدۃ :۲۳۰ ، جمہرۃ القواعد الفقہیۃ ، المادۃ : ۱۶۰۴، السنن الکبری للبیہقي: ۵/۵۷۳، جمع الجوامع :۵/۳۸۱، رقم الحدیث:۱۵۸۲۰،کنز العمال :۶/۹۹، رقم الحدیث: ۱۵۵۱۲، اعلاء السنن:۱۴/۵۶۶،الدر المختار مع الشامي:۷/۳۹۵،کتاب البیوع، باب المرابحۃ، فقہ السنۃ:۳/۱۹۲، مکتبۃ الفتح للإعلام العربي القاہرۃ)