الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
کامال صدقہ کردے تو یہ تصرفات ولی کی اجازت پر موقوف نہیں ہوںگے، کیوںکہ ولی کو صغیر کے حق میں ان امور کی ولایت حاصل نہیں ہے ،اس صورت میں مجیز موجود نہیں ہے، لہذا یہ امور باطل ہیں ،اجازت پر موقوف نہیں ہوں گے۔(۲۴){اَلأَصْلُ أَنَّ لِلْحَالَۃِ مِنَ الدَّلَالَۃِ کَمَا لِلْمَقَالَۃِ} ترجمہ: اصل یہ ہے کہ دلالتِ حال، دلالتِ مقال کی طرح ہو تی ہے۔مثال: کسی شخص نے اپنا مال کسی کے پاس امانتاً رکھ دیا، امین نے وہ مالِ امانت اپنے اہلِ خانہ میں سے کسی کو دیدیا اور وہ اس کے پاس سے ضائع ہو گیا،تو امین ضامن نہیں ہوگا، گرچہ صاحبِ امانت نے صراحتاً کسی اور کو دینے کی اجازت نہیں دی تھی۔ عدمِ وجوبِ ضمان کی و جہ یہ ہے کہ جب اس نے امین کو اپنا مال دیا باوجود اس کے کہ وہ اس بات سے بخوبی واقف تھا کہ امین اس کی حفاظت نہیں کرسکے گا، تو یہ دلالتِ حال اس بات کی اجازت کے مترادف ہے کہ امین اس کے مال کی حفاظت ویسی ہی کرے، جس طرح وہ اپنے مال کی کیا کرتا ہے، اور امین کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے مال کی حفاظت کبھی خود کرتا ہے اور کبھی اپنے گھروالوں میں سے کسی کے ذریعہ کرواتا ہے، تو صاحبِ مال کا اپنا مال امین کو دینا گویا صراحتاً اجازت کی مانند ہے، کہ میرے مال کی بھی حفاظت ایسی ہی مطلوب ہے، جیسے آپ اپنے مال کی کرتے ہیں،اب امین نے بغرضِ حفاظت ہی مال اپنے گھروالوں میں سے کسی کو دیا اور وہ ضائع ہوگیا تو امین کی جانب سے تعدی اور حفاظت میں کوتا ہی نہ پائے جانے کی وجہ سے ضمان واجب نہیں ہوگا۔(۲۵){اَلأَصْلُ أَنَّ اللَّفْظَ إذَا تَعَدّیٰ مَعْنَیَیْنِ أحَدُہُمَا أجْلٰی مِنَ الاٰخَرِ وَالاٰخَرُ أخْفٰی فَإنَّ الأجْلٰی أمْلَکُ مِنَ الأخْفٰی } ترجمہ: اصل یہ ہے کہ جب لفظ دومعنی کی طرف متعدی ہو اور ایک معنی دوسرے سے زیادہ واضح ہو، اور دوسرا زیادہ خفی، تو مراد ہونے میں معنی ٔ اجلیٰ معنی ٔ اخفیٰ سے اولیٰ ہے۔