الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
مثال: کسی آدمی نے اپنی کوئی چیز رہن رکھ کر قرض وصول کیا ،تو مرتہن کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ رہن رکھی ہوئی چیز سے کسی قسم کا فائدہ اٹھائے۔ حارث ابن اسامہ نے اپنی ’’مسند‘‘ میں حضرت علیؓ سے یہ حدیث مرفرعاً روایت کی ہے: ’’ کل قرض جر منفعۃ فہو ربا ‘‘۔’’ہر وہ قرض جو نفع کو کھینچ لائے، وہ ربوٰ ہے‘‘۔ آج کل ہمارے زمانے میں سرمایہ دار حضرات اپنی رقم ضرورت مندوں کو بطور قرض دیتے ہیں اور ہر ماہ اس پر کچھ فیصد روپئے وصول کرتے ہیں، یہ سودہے، جو حرام ہے اور نظام معیشت کو تباہ وبرباد کر نے والا ہے ۔ اسی طرح بعض حضرات اپنا روپیہ بینک میں جمع ہی اس لئے کرتے ہیں کہ وہ کچھ سالوں کے بعد دوگنا ہو کرملے، یااس پر کچھ شرح سود حاصل ہو تو یہ بھی حرام ہے۔ بعض لوگ جو ریٹائرڈ ہوتے ہیں، وہ اپنی پوری پنشن کی رقم بینک میں جمع کردیتے ہیں اور ہر ماہ اس سے ملنے والے سود پر اپنا گذارہ کرتے ہیں ،اور اسے ایک اچھی ترکیب خیال کرتے ہیں کہ پوری رقم محفوظ ہے اور ملنے والے شرح سود سے خرچ پورا ہو رہا ہے، تو یہ لوگ پنشن خور نہیںبلکہ سود خور ہیں،کہ پنشن خور اس وقت ہوتے جبکہ پنشن کی رقم کھا رہے ہوتے جب کہ وہ تو محفوظ ہے، اور جو حاصل ہورہا ہے وہ سود ہے، تو حرام مال پیٹ میں جارہا ہے، جب کہ حکم باری تعالیٰ ہے:{یا أیہا الرسل کلوا من الطیبات واعملوا صالحا}۔بواسطۂ رُسل امت کو حکم دیا گیا کہ حلال کھائو اور نیک کام کرو! جیسی غذا پیٹ میں جائے گی ویسے ہی اعمال سرزد ہوںگے، اللہ تعالیٰ ہمیں اکلِ طیب کی توفیق دے، اور مالِ طیب کے اسباب ہر کسی کو عطا فرمائے ۔آمین (رد المحتار:۴/۱۸)قاعدہ(۲۴۷): {کُلُّ لَعِبٍ فِیْہِ قِمَارٌ فَہُوَ حَرَامٌ} ترجمہ: ہر ایسا کھیل جس میں جوا ہو، وہ حرام ہے۔ (جمہرۃ القواعد الفقہیۃ:۲/۸۴۷، رقم المادۃ:۱۶۱۳)