الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
فائدہ: مذکورہ مثال میں ’’دخول‘‘ شرط ہے،اور ’’رکوب‘‘ وصفِ شرط ہے۔قاعدہ(۳۶۷): {اَلْوَصْفُ فِيْ الْحَاضِرِ لَغْوٌ وَفِيْ الْغَائِبِ مُعْتَبَرٌ} ترجمہ: شیٔ موجود میں وصف کا بیان کرنا لغو، اور غیر موجود میں معتبر ہوتا ہے۔ (القواعد الکلیۃ والضوابط الفقہیۃ:ص۲۹۶، درر الحکام :۱/۶۴، المادۃ:۶۵، قواعد الفقہ:ص۱۳۷، جمہرۃ القواعد:۱/۵۸۷، شرح المجلۃ لسلیم رستم باز:ص۴۵)مثال: گاڑیوں کا ڈیلر(Dealer) اپنے کسٹمر(Customer)سے ( درآنحالانکہ بلیک کلر کی کار سامنے موجود ہو )یوں کہے: میں نے یہ وہائٹ کار آپ کے ہاتھ دولاکھ پچپن ہزار پانچ سو پچپن روپئے میں فروخت کردی، اور کسٹمرنے اسے قبول کیا تو یہ بیع درست ہوگی ،اور مشتری کو فسخِ عقد کا حق نہیں ہوگا، کیوں کہ شی ٔموجود میں بیانِ وصف لغو ہے، ہاں! اگر کار موجود نہ ہوتی اور بلیک کار کا سودا وہائٹ کہہ کر کیا جاتا، تو اسے فسخِ بیع کا حق حاصل ہوتا، کیوں کہ غیر موجود میں بیانِ وصف کا اعتبار ہوتا ہے۔ (القواعد الکلیۃ والضوابط الفقہیۃ:ص۲۹۶)ٌقاعدہ(۳۶۸): {اَلْوَکَالَۃُ لا تَقْتَصِرُ عَلَی الْمَجْلِسِ بِخِلافِ التَّمْلِیْکِ} ترجمہ: وکالت، مجلس پر منحصر نہیں ہوتی ہے، برخلاف تملیک کے۔ (قواعد الفقہ:ص۱۳۸، القاعدۃ:۳۹۳، الأشباہ والنظائر)مثال: اگر شوہر کسی شخص کو اپنی بیوی کو طلاق دینے کا وکیل بنائے اور یوں کہے: تم میری بیوی کو طلاق دیدو، تو وکیل کو اختیار ہوگا کہ طلاق اسی مجلس میں یا اس مجلس کے بعد دے۔(یہ مثالِ وکالت ہے) اور اگر شوہر اپنی بیوی کو اپنی ذات پر ایقاعِ طلاق کا مالک بنائے، اور یوں کہے: تم اپنے آپ کو طلاق دیدو، توعورت کو صرف اسی مجلس میں ایقاعِ طلاق کا اختیار ہوگا۔(یہ مثالِ تملیک ہے)فائدہ: وکالت میں مؤکل کو رجوع کا اختیار ہوتا ہے، جب کہ تملیک میں مملِّک یعنی مالک بنانے والے کو رجوع کا اختیار نہیں ہوتا۔ فافہم (رحمانی)