الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
مثال: آپ نے کسی انسان کو ضربِ شدید یا حبسِ مدید کی دھمکی دے کر اس سے اپنے مقروض ہونے کا اقرارکروایا، تو اس کایہ اقرار باطل ہے اور اس پر آپ کا قرض ثابت نہ ہوگا۔قاعدہ(۴۸): {أکْبَرُ الرَّأیِ بِمَنْزِلَۃِ الْیَقِیْنِ فِیْمَا یَبْتَنِيْ عَلَی الِاحْتِیَاطِ} ترجمہ: جو چیزیں مبنی بر احتیاط ہیں، ان میں غالب رائے یقین کا درجہ رکھتی ہے۔ (شرح السیر الکبیر:۲/۴۵ ، باب الحربي یستأمن إلینا ثم نجدہ في أیدیہم ، قواعد الفقہ:ص۶۱، القاعدۃ:۴۵)مثال: اگرکسی شخص کو غالبِ گمان یہ ہو کہ اسے نواقضِ وضو میں سے کوئی چیز پیش آچکی اوراس کا وضو ٹوٹ گیا تو اس پر لازم ہے کہ وہ وضو کرلیں، کیوں کہ اکبر رائے اور غالبِ ظن (ان احکام میں جو احتیاط پر مبنی ہیں) متحقق کے درجہ میں ہوتا ہے ۔ ’’لان الغالب کالمتحقق‘‘ (الاشباہ والنظائر۔ص؍۲۷۲) نوٹ: اکبر رائے اور ظنِ غالب سے مراد، ایسا گمان ہے،جو مرتبۂ یقین سے قریب ہو ۔شک: سے مراد ، تساوی الطرفین، یعنی دونوں جانب کا برابر ہونا ہے۔ظن: سے مراد، دونوں جانبوں میں سے کسی ایک جانب کا راجح ہونا ہے اور وہ جانبِ صواب ہے ۔وہم: جہت خطا کے جہت صواب پر راجح ہونے کو کہتے ہیں۔ (الأشباہ والنظائر:ص۲۷۱)قاعدہ(۴۹):{اَکْبَرُ الرَّأْیِ فِیْمَا لا یُمْکِنُ الْوُقُوْفُ عَلٰی حَقِیْقَتِہٖ بِمَنْزِلَۃِ الْحَقِیْقَۃِ} ترجمہ: جس شی ٔ کی حقیقت پر واقفیت ناممکن ہو، اس میں غالبِ رائے حقیقت کے درجہ میں ہوتی ہے ۔ (شرح السیر الکبیر:۱/۱۱۷، ۱/۷۱، باب ما یجب من طاعۃ الوالي وما لا یجب ، قواعد الفقہ:ص۶۲، القاعدۃ:۴۶ ، جمہرۃ القواعد: القاعدۃ:۳۶۰ )مثال: اگر کوئی آدمی کسی کو رات کے وقت اپنے گھر میں داخل ہوتے دیکھ لے اور یہ معلوم نہ ہو کہ یہ چور ہے یا چوروں کے ڈر سے بھاگ کر پناہ لینے والا ہے، ایسی صورت میں اس کے ظاہرِ حال کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا، اگر اس کے اوپر چوروں کی کوئی علامت ہو یا اس کے ساتھ کوئی دوسرا آدمی بھی ہے،