الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
لنا من شيء ‘‘( ہمیں امان دو ہماری تمام چیزوں پر)تو ان کی تمام چیزیں، ان کے اس کلام میں داخل ہوںگی، کیوںکہ اسمِ شیٔ ہر موجود کوشامل ہوتا ہے۔قاعدہ(۱۷۳): {اَلصَّرِیْحُ إذَا صَادَفَ مَحَلَّہٗ لَمْ تُؤثِّرِ النِّیَّۃُ مِنْہُ} ترجمہ: صریح جب اپنے محل کو پالے تونیت مؤثر نہیں ہوتی۔ (جمہرۃ : ۲/۷۵۹، رقم: ۱۰۴۶)مثال: جب کوئی آدمی اپنی بیوی کو ’’ أنت طالق ‘‘ کہہ دے، تو طلاق واقع ہوجائے گی، اور عدمِ ایقاع کی نیت مفید وکار آمد نہ ہوگی۔قاعدہ(۱۷۴): {اَلصَّرِیْحُ لا یَحْتَاجُ إلَی النِّیَّۃِ قَضَائً لا دِیَانۃً بِخِلافِ الْکِنَایَۃِ} ترجمہ: صریح قضاء ً ودیانۃً محتاجِ نیت نہیں ہے، بخلافِ کنایہ ۔ (موسوعۃ القواعد الفقہیۃ:۶/۲۲۹)مثال جزء اول(صریح): اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے : ’’تجھے طلاق ہے‘‘، تو فوراً طلاق واقع ہوجائے گی، اور شوہر کے قول : ’’میری نیت قید سے رہائی کی تھی‘‘ ، کا اعتبار نہیں ہوگا۔مثال جزء ثانی (کنایہ): اگرکوئی شخص اپنی بیوی سے یوں کہے: ’’ أخرجي ، إذہبي، قُومي ‘‘، تو ان الفاظ سے جب تک طلاق کی نیت نہیں کرے گا، طلاق واقع نہیں ہوگی۔ (غایۃ الأوطار:۲/۱۳۲، کتاب الطلاق ،باب الکنایات،موسوعۃ القواعد الفقہیۃ:۶/۲۳۰)قاعدہ(۱۷۵): {اَلصَّغِیْرُ مُؤاخَذٌ بِضَمَانِ الْفِعْلِ} ترجمہ: ضمانِ فعل میں صغیر (نا بالغ)کا مؤاخذہ ہوگا۔ (جمہرۃ:۲/۷۶۰، رقم: ۱۰۴۹، قوعد الفقہ: ۱۳، رقم: ۸، درر الحکام: ۲/۶۰۴، شرح المجلۃ لسلیم رستم باز:ص۵۱۰، الموسوعۃ الفقہیۃ: ۱/۲۲۵)مثال۱: اگر بچہ چھت کے اوپر سے پیشاب کردے، اور کسی دوسرے کا کپڑا خراب کردے ، تو اس پر اس کے مال میں ضمان لازم ہوگا ، اور اگر اس کا اپنا مال نہ ہو ، تو اس کی حالتِ یُسر کا انتظار کیا جائے