الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
دین و دنیا پر مشتمل ہے ،اور’’أولي الأمر منکم‘‘سے پہلے’’ أطیعوا ‘‘ فعل نہیں ہے، بلکہ اس کا عطف ’’الرسول‘‘ پر ہے، جس میں یہ نکتہ ہے کہ امراء کے تمام اوامر قابلِ اطاعت نہیں، بلکہ صرف وہی احکام قابلِ اطاعت ہوں گے، جن سے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہوتی ہو، اس لیے کہ ولاتِ امر کے اوامر میں خطا وصواب ،طاعت ومعصیت، دونوں کا احتمال ہے۔قاعدہ(۲۷۱): {لا مَسَاغَ لِلإجْتِہَادِ فِي مَوْرِدِ النَّصِّ} ترجمہ: محل نص میں اجتہاد جائز نہیں ہے۔ (درر الحکام :۱/۳۲ ، المادۃ :۱۴، قواعد الفقہ:ص۱۰۸، القاعدۃ:۲۶۰، ترتیب اللآلي :ص۹۸۸، القواعد الفقہیۃ:ص۱۴۸، ۴۳۰ ، شرح القواعد:ص۱۴۷، جمہرۃ القواعد: القاعدۃ:۱۸۵۲، القواعد الکلیۃ :ص۳۶۱)مثال: جس نص کے معنی واضح ہوں، اس میں اجتہاد جائز نہیں ہے، مثلاً فرمانِ باری تعالیٰ:{أحل اللہ البیع وحرم الربوٰ}’’اللہ رب العزت نے بیع کو حلال فرمایا اور ربوٰ کو حرام‘‘ ۔ اب اجتہاد کرکے اس فرمان کو معنی ٔآخر پر محمول کرکے حلتِ بیع اور حرمتِ ربوٰ کے خلاف حکم لگا نا جائز نہیں ہے۔قاعدہ(۲۷۲): {لا یَبْقٰی لِلإنْسَانِ الْمِلْکُ عَلٰی نَفْسِہٖ} ترجمہ: انسان کے لیے اپنی ذات پر ملک باقی نہیں رہتی ہے ۔ (شرح السیر الکبیر:۵/۱۸۸، باب خروج العبد بأمان من دار الحرب وخرجہ مسلماً أو ذمیاً ، قواعد الفقہ:ص۱۰۸، رقم القاعدۃ:۲۶۱، القواعد الکلیۃ :ص۲۵۳)مثال: جب انسان اپنی ذات کا مالک نہیں ہے، تو اس کے لئے اپنی آنکھ، خون اور گردہ وغیرہ کو فروخت کرنا جائز نہیں ہے، کیوںکہ بیع کے صحیح ہونے کے لئے مبیع کا مالک ہونا ضروری ہے، اور انسان اپنے کسی جزء کا مالک نہیں ہے۔قاعدہ(۲۷۳): {لا یَتِّمُ التَّبَرُّعُ إلَّا بِالْقَبْضِ} ترجمہ: تبرع (احسان کرنا، صدقہ کرنا) بدونِ قبضہ پورا نہیں ہوتا ہے۔ (درر الحکام :۱/۵۷ ، المادۃ :۵۷، شرح السیر الکبیر:۵/۱۸۵، باب الاستبراء ، ترتیب اللآلي في سلک الأمالي :ص۴۸۱ ، القواعد الفقہیۃ :ص۱۴۸، قواعد الفقہ:ص۱۰۸، رقم القاعدۃ:۲۶۲، شرح القواعد:ص۲۹۹)