الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
قاعدہ(۱۲۵): {اَلْحَقُّ مَتٰی ثَبَتَ لا یَبْطُلُ بِالتَّأخِیْرِ وَلا بِالْکِتْمَانِ} ترجمہ: حق جب ثابت ہوتا ہے تو تاخیر اور کتمان(چھپانا) سے باطل نہیں ہوتا۔ (شرح السیر الکبیر:۵/۱۴۱، باب عشور أہل الحرب والمسلمین وأہل الذمۃ ، قواعد الفقہ:ص۷۷، القاعدۃ:۱۱۷)مثال: صاحبِ مال نے تین سال تک زکوٰۃ وصول کرنے والے سے اپنے مال کو چھپائے رکھا، پھر عاشر (زکوٰۃ وصول کرنے والا) کو وہ مال معلوم ہوا تو گذشتہ تین سالوں کی زکوٰۃ وصول کرے گا، کیوںکہ زکوٰۃ بیت المال کا حق ہے اور حق، تاخیر اور کتمان سے ساقط نہیں ہوتا ہے۔ (شرح السیر:۲/۲۹۲)قاعدہ(۱۲۶): {اَلْحَقُّ الْوَاحِدُ یَجُوْزُ أنْ یَثْبُتَ فِيْ مَحَلَّیْنِ} ترجمہ: ایک حق د و محل میں ثابت ہوسکتا ہے ۔ (قواعد الفقہ:ص۷۸، القاعدۃ:۱۱۹، شرح السیر الکبیر:۵/۱۵۷، باب من لہ من الأمر أن یقبل وأن یقسم وأن یجعل الأرض أرض خراج)مثال: قرض خواہ اپنا قرض اصل مقروض اور کفیل دونوںسے طلب کرسکتاہے ، کفالہ سے اصیل کاذمہ بری نہیں ہوتا۔قاعدہ(۱۲۷): {اَلْحُقُوْقُ الْمُجَرَّدَۃُ لا یَجُوْزُ الاعْتِیَاضُ عَنْہَا} ترجمہ: حقوقِ مجر دہ کا عوض لینا جائز نہیں ہے ۔ (قواعد الفقہ:ص۷۸، القاعدۃ:۱۱۸، جمہرۃ القواعد:القاعدۃ:۷۶۳، ۸۰۲)مثال۱: حقوق مجردہ ایسے حقوق کو کہتے ہیں، جو ذاتی حق سے خالی ہوں ،یعنی جن کا ثبوت بلااستحقاق، محض مصلحت کی بنا پرہو، جیسے حقِ شفعہ ،اگر شفیع (جسے حقِ شفعہ حاصل ہے ) مال کے عوض اپنے حق شفعہ سے سبک دوش ہوتو یہ مصالحت باطل ہے ۔ اسی طرح اگر ایک بیوی،دوسری بیوی سے اپنی شب باشی کی باری کے عوض مال پر مصالحت کرے ،تووہ کسی مال کی حق دار نہیں ہوگی، کیوںکہ حقوقِ مجردہ کاعوض لینا جائز نہیں ہے۔