الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
فائدہ: گونگے کا اپنے سر سے لمبائی میں اشارہ کرنا یہ اقرار کا اشارہ ہوتا ہے ۔ (درر الحکام:۱/۷۶)قاعدہ(۲۹): {اَلأصْلُ فِي الأبْضَاعِ التَّحْرِیْمُ} ترجمہ: اَبضاع میں اصل تحریم (حرام ہونا)ہے۔ (الأشباہ والنظائر لإبن نجیم:ص۲۵۵، الأشباہ للسیوطي:۱/۱۳۳، القواعد الفقہیۃ:ص۱۱۴، قواعد الفقہ:ص۵۹، رقم القاعدۃ:۳۲)مثال: جب کسی عورت میں حلت وحرمت کا تقابل ہو تو حرمت غالب ہو تی ہے، یہی وجہ ہے کہ فروج (شرمگاہوں) میں تحری جائز نہیں ہے۔ (الأشباہ :ص۸۸)فائدہ: أبضاع، بُضع کی جمع ہے،اور بضع عورت کی شرم گاہ کو کہا جاتا ہے۔قاعدہ(۳۰): {اَلأصْلُ فِي الْأشْیَائِ الإبَاحَۃُ} ترجمہ: چیزوں میں اصل اباحت (مباح ہونا) ہے۔ (الأشباہ والنظائر لإبن نجیم :ص۲۵۲، الأشباہ والنظائر للسیوطي:۱/۱۲۱، القواعد الفقہیۃ:ص۱۰۷، قواعد الفقہ:ص۵۹، القاعدۃ:۳۳)(رد المحتار:۱/۱۰۵، مطلب المختار أن الأصل في الأشیاء الإباحۃ)مثال۱: جن چیزوں کی اباحت اور حرمت پر شریعت کا وارد ہونا ممکن ہو ، ورودِ شرع سے پہلے وہ مباح ہی ہوںگی؛ کیوںکہ اصل یہی ہے؛ اسی بناء پر جمہور حنفیہ اور شافعیہ اس بات کے قائل ہیں ،کہ جس شخص کو شرع نہ پہونچی ہو، اس کے لئے جائز ہے کہ جو چاہے کھائے؛ البتہ ورودِ شرع کے بعد بیانِ شریعت کے مطابق ،شی ٔ حرام یا مباح ہوگی۔مثال۲: اگر کوئی مسلم شخص ماء متغیر پائے ، اور یہ احتمال ہوکہ پانی نجاست کے گرجانے کی وجہ سے متغیر ہوا، یا زیادہ ٹھہرنے کی وجہ سے ، تو اس پانی سے وضو اور غسل دونوں جائز ہیں، اس لیے کہ اشیاء میں اصل اباحت ہے۔ لو وجد المسلم ماء متغیرا ، واحتمل أن یکون تغیرہ بنجاسۃ أو بطول مکث، فلہ التطہر بہ ، لأن الأصل في المیاہ الطہارۃ لقولہ تعالی : {وأنزلنا من السماء مائً طہوراً} ، ولا یزول الیقین بالشک ۔ (الشک أحکامہ وتطبیقاتہ في الفقہ الإسلامي : ص ۸۸)