الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
نکاح پر قادر نہ ہو، تواسلام نے اس کے لیے نکاح کا متبادل روزہ قراردیا ہے،حضرت عبد اللہ ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ یا معشر الشباب ! من استطاع منکم الباء ۃ فلیتزوج ، فإنہ أغض للبصر وأحصن للفرج ، ومن لم یستطع فعلیہ بالصوم فإنہ لہ وِجاء‘‘۔متفق علیہ ۔ (مشکوٰۃ المصابیح: ص۲۶۷، کتاب النکاح)مثال۲: اگر کسی شخص سے کوئی مثلی چیز تلف ہوجائے، اور اب وہ مثلی چیز بازار میں مفقود ہوجائے، تو ایسی صورت میں اس کا بدل ،اس کی قیمت قرار پائے گی، اور اسی کی واپسی لازم ہوگی ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ: ۱/۲۲۶)قاعدہ(۱۱۹): {اَلْحُدُوْدُ تَنْدَرِئُ بِالشُّبْہَاتِ} ترجمہ: حدود (سزائیں) شبہات سے ٹل جاتی ہیں۔ (الأشباہ لإبن نجیم:ص۴۱۸ ، الأشباہ للسیوطي:۱/۲۴۲، قواعد الفقہ:ص۷۶، القاعدۃ:۱۱۱، ترتیب اللآلي:ص۶۳۴)مثال: کسی آدمی نے اپنی بیوی کی باندی سے یہ خیال کرکے وطی کرلی کہ یہ میرے لئے حلال ہے، تو اس پر حدِ زنا قائم نہیں کی جائے گی۔ (الأشباہ:ص۱۴۹)توضیح: شریعتِ اسلامیہ کی طرف سے بعض جرائم کی سزائیں مقررہیں ،انہیں حدود سے تعبیر کیا جاتا ہے ، اور وہ صرف چار ہیں : حدِ زنا، حدِ قذف ، حدِ شربِ خمر اور حدِ سرقہ۔دیگر جرائم کی سزائیں شرعاً مقر ر نہیں بلکہ مفوَض الی رأی الحاکم ہیں ، انہیں تعزیر کہا جاتا ہے۔قاعدہ(۱۲۰): {اَلْحَرْبُ خُدْعَۃٌ} ترجمہ: جنگ محض ایک چالبازی ہے۔ (شرح السیر الکبیر:۵/۹۹، باب المرتد یصیب الحد وغیرہ ، قواعد الفقہ:ص۷۶، القاعدۃ:۱۱۲)مثال۱: مجاہد کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنے حربی ساتھی کو بحالتِ جنگ چالبازی سے کام لے، اور اس کو مجاہد کی جانب سے دھوکہ دہی نہیں کہا جائے گا۔ (شرح السیر:۱/۷۳)