الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
قاعدہ(۱۹۹): {اَلْعَفْوُ إنَّمَا یُسْقِطُ مَا کَانَ مُسْتَحَقًّا لِلْعَافِي خَاصَّۃً} ترجمہ: معافی صرف معاف کنندہ کے حق کو ساقط کرتی ہے ۔ (شرح السیر الکبیر:۵/۱۶، باب من الرہن یأخذ المسلمون والمشرکون منہم ، قواعد الفقہ:ص۹۳، القاعدۃ:۱۹۱)مثال: قتلِ خطا میں دیت (خون بہا) اولیائِ مقتول کا حق ہے، اگر وہ اپنے اس حق کو معاف کردے تو وہ ساقط ہوجائے گا، لیکن اگر رہزنوں نے کسی کا قتل کیا تو ولی ٔ مقتول کے ان کو معاف کردینے سے، وہ حدِشرعی سے نہیں بچ سکیں گے، بلکہ رہزنوں کو قتل کیا جائے گا، کیوںکہ رہزنوں کی یہ سزا اللہ کاحق بن کر واجب ہوتی ہے ،اور بندہ کو اس بات کا اختیار نہیںہے کہ وہ اللہ کے حق کو ساقط کردے۔قاعدہ(۲۰۰): {اَلْعَقْدُ إذَا دَخَلَہٗ فَسَادٌ قَوِيٌّ مُجْمَعٌ عَلَیْہِ أوْجَبَ فَسَادَہٗ، شَاعَ فِي الْکُلِّ} ترجمہ: جب عقد میںمتفق علیہ فسادِ قوی داخل ہوجائے ، تو وہ فسادِ عقد کا موجب ہوگا ، اور پورے عقد میں عام ہوگا۔ (جمہرۃ:۲/۷۸۰ ، رقم :۱۱۸۵، جمہرۃ :۱/۳۷۸)مثال: مذبوحہ اور میتہ کو ایک ساتھ ملاکر بیچنا ،یا عصیرعنب وخمر کو ایک ساتھ فروخت کرنا ،امام صاحب کے نزدیک بیع فاسد ہے ، جب کہ صاحبین کے نزدیک مذبوحہ و عصیر میں یہ بیع درست ہوگی، اور میتہ وخمر میں فاسد ہوگی ۔ (جمہرۃ القواعد:۱/۳۷۹)قاعدہ(۲۰۱): {اَلْعَقْدُ الْفَاسِدُ لا یَصِحُّ وَإنْ رَضِيَ الْمَالِکُ بِفَسَادِہٖ} ترجمہ: عقدِ فاسد جائز نہیں ہے، گرچہ مالک اس کے فساد سے راضی ہو۔ (جمہرۃ:۲/۷۸۳، المادۃ:۱۲۰۳)مثال۱: اگر کوئی شخص شراب یا خنزیر کے بدلہ کپڑا فروخت کرے، یا مدتِ مجہولہ کے ساتھ بیعِ سلم کرے، تویہ عقد، عقدِ فاسد ہے، اور بائع ومشتری پر رفعِ فساد کے لیے اس کا فسخ کرنا واجب ہے،اگرچہ بائع اس فساد پرراضی ہو ۔ (حاشیۃ الہدایۃ:۲/۶۴۰، کتاب البیوع ، فصل في أحکامہ)