الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
تھے؟ تو خزیمہؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں آپ کی تصدیق کرچکا ہوں، اس لئے یہ گواہی دے رہاہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی شہادت قبول فرمائی اور یہ ارشاد فرمایا :’’مَنْ شِہَدَ لَہٗ خُزَیْمَۃُ فَہُوَ حَسْبُہٗ‘‘ ’’خزیمہ جس کے حق میں شہادت دے تو وہ اس کے لئے کافی ہے ‘‘۔ مذکورہ روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنِ تنہا خزیمہؓ کی شہادت کو دومردوں کی شہادت کے درجہ میں قرار دیاجو خلافِ قیاس ہے ، لہٰذا یہ حکم صرف خزیمہؓ کے ساتھ ہی مخصوص ہوگا،دوسروں کو اس پر قیاس نہیں کیا جائے گا، یہاںتک کہ خلفاء اربعہ میںسے بھی کسی ایک کی گواہی، دو گواہوں کی گواہی کے درجہ میں نہیں ہوگی۔ (حاشیہ حسامی : ص۹۷) اسی طرح نماز میں قہقہہ کا ناقض وضو ہونا خلافِ قیاس ہے، لہٰذا خارجِ صلوۃقہقہہ کو، داخلِ صلوۃ قہقہہ پر قیاس کرکے اسے ناقضِ وضو نہیں قرار دیا جائے گا۔قاعدہ(۳۰۶): {مَا ثَبَتَ یَکُوْنُ بَاقِیًا مَا لَمْ یُوْجَدِ الدَّلِیْلُ الْمُزِیْلُ} ترجمہ: جو چیز ثابت ہو، وہ باقی رہے گی جب تک دلیلِ مزیل نہ پائی جائے۔ (شرح السیر الکبیر:۵/۵۰، باب بیان الوقت الذي یتمکن المستأمن فیہ من الرجوع إلی أہلہ والوقت الذي لا یتمکن فیہ من الرجوع ، قواعد الفقہ:ص۱۱۴، القاعدۃ:۲۸۹، ترتیب اللآلي :ص۱۰۲۱)مثال: کسی شخص کاکپڑا ناپاک ہوا تھا، اس نے اس کو دھوکر پاک کردیا، اب جب اس کی طہارت ثابت ہوگئی تو وہ ناپاک نہیں ہوگا، تاآں کہ کسی دلیل سے اس کی طہارت کا زائل ہونا ثابت ہوجائے، کیوںکہ کسی شی ٔکی بقا، دلیلِ مبقِی کا مطالبہ نہیں کرتی ہے، ہاں ابتداء ً اثباتِ شی ٔ، دلیلِ مثبِت کامطالبہ کرتاہے ۔ ( رحمانی)قاعدہ(۳۰۷): {مَا جَازَ بِعُذْرٍ بَطَلَ بِزَوَالِہٖ} ترجمہ: جو چیز کسی عذر کے سبب ثابت ہو،وہ زوالِ عذر سے باطل ہوگی۔ (درر الحکام :۱/۳۹ ، المادۃ :۲۳، القواعد الکلیۃ :ص۲۲۲، قواعد الفقہ:ص۱۱۵، القاعدۃ:۲۹۰، شرح القواعد:ص۱۸۹، موسوعۃ القواعد الفقہیۃ:۹/۳۴)