الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
مثال: کسی شخص کوکسی شخص نے کسی عقد میں اپنا وکیل بنایا، پھر اس نے اسے اس کی عدمِ موجودگی میں قولاً معزول کردیا تو وکیل معزول نہیں ہوگا، جب تک کہ اسے اپنی معزولی کا علم نہ ہو۔ مثالِ مذکور میں قولاً معزول کرنے سے معزول ہونا متحقق نہیں ہوگا، بلکہ علماً اس فعل کووکیل کے جاننے سے معزولی ثابت ہوگی ۔ قاعدہ میں’’ کما في الصبي‘‘ مذکورہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ بچہ اپنے فعل سے تو ضامن ہوگا، مگر اپنے قول سے ضامن نہیں ہوگا،جیسے اگر کوئی بچہ عقدِ کفالہ کرے،یا کسی چیز کا اقرار کرے تو وہ چیز اس پر لازم نہ ہوگی۔(۲۰) {الأَصْلُ أَنَّ الْقَوْلَ قَوْلُ الْأَمِیْنِ مَعَ الْیَمِیْنِ مِنْ غَیْرِ بَیِّنَۃٍ} ترجمہ : اصل یہ ہے کہ قولِ امین ہی یمین کے ساتھ، بلاکسی بینہ معتبر ہو تاہے۔مثال : امین کہے کہ میں نے امانت لوٹا دی اور مالک کہے کہ آپ نے نہیں لوٹائی، تو امین ہی کا قول، قسم کے ساتھ معتبر ہو گا۔(۲۱) {اَلأَصْلُ أَنَّ کُلَّ آیَۃٍ تُخَالِفُ قَوْلَ أصْحَابِنَا فَإنَّہَا تُحْمَلُ عَلَی النَّسْخِ أوْ عَلَی التَّرْجِیْحِ والأَوْلٰی أنْ تُحْمَلَ عَلَی التَّأوِیْلِ مِنْ جِھَۃِ التَّوْفِیْقِ} ترجمہ: اصل یہ ہے کہہر وہ آیت جو ہمارے اصحاب (ائمہ احناف) کے مخالف ہو، اسے یا تو نسخ ،یا ترجیح پر محمول کیا جائے گا ،اور بہتر یہی ہے کہ بصورت تطبیق اسے تاویل پر محمول کیا جائے۔ جو آیت یا روایت بظاہر اقوالِ احناف کے مخالف دکھائی دے، وہ مؤول ہوگی۔ ’’بظاہر‘‘ اس لئے کہا جارہا ہے کہ کسی بھی آیت یا روایت کا قولِ احناف کے مخالف ہونا ممکن ہی نہیں ہے، کیوں کہ ان حضرات ؒ نے مسائل کا استنباط کتاب اللہ عزو جل، سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم،اجماعِ امت اور قیاسِ صحیح سے ہی کیا ہے،جو ان تینوں دلائلِ فقہیہ سے ماخوذ ہے۔اسے خوب یادرکھیں اورکہیں دھوکہ نہ کھائیں۔