الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
مثال: کسی نے اپنی بیوی کی طلاق کو صحت پرمعلق کیا، درانحالانکہ وہ بحالتِ صحت ہی ہے، تو فوراً طلاق واقع ہوگی۔اور اگر حیض پر معلق کیا، جب کہ وہ بحالتِ حیض ہی ہے ، تو طلاق اس حیض میں نہیں ، بلکہ دوسرے حیض میں واقع ہوگی۔قاعدہ(۳۲۲): {اَلْمُبَاشِرُ ضَامِنٌ وَإنْ لَمْ یَتَعَمَّدْ} ترجمہ: کسی کام کا براہِ راست کرنے والا ضامن ہوتا ہے، اگرچہ اس نے اس کام کو عمداً نہ کیاہو۔ (درر الحکام:۱/۹۳، المادۃ :۹۲، قواعد الفقہ :ص۱۱۷، القاعدۃ:۳۰۱ ، ترتیب اللآلي:ص۱۰۴۵، شرح القواعد:ص۴۳۵)مثال: کسی شخص نے دوسرے کے مال کو بلا و جہ شرعی ضائع کیا، تووہ اس مال کا ضامن ہو گا، خواہ قصداً ضائع کیا ہو یا بلاقصد۔قاعدہ(۳۲۳): {اَلْمَبْنِيْ عَلَی الْفَاسِدِ فَاسِدٌ} ترجمہ: مبنی برفاسد، فاسد ہوتا ہے۔ (الأشباہ والنظائر لإبن نجیم:ص۲۳۹، موسوعۃ القواعد الفقہیۃ:۹/۴۳۹ ، قواعد الفقہ :ص۱۱۷، القاعدۃ:۳۰۲ ، جمہرۃ القواعد الفقہیۃ:۲/۶۷۳)فائدہ : فسادِ اصل کی صورت میں فرع بھی فاسد ہوتی ہے۔مثال: نکاح فاسد میں شوہر اپنی بیوی کو طلاق دے تو یہ طلاق واقع نہیں ہوگی، بلکہ یہ طلاق دینا ’’متارکہ‘‘(ایک دوسرے کو چھوڑنا) ہوگا۔ کذا في رد المحتار۔قاعدہ(۳۲۴): {مَتٰی أمْکَنَ الْعَمَلُ بِالْحَقِیْقَۃِ سَقَطَ الْمَجَازُ} ترجمہ: جب حقیقت پرعمل ممکن ہو تو مجاز ساقط الاعتبار ہوگا۔ (منار لحافظ الدین النسفي ، قواعد الفقہ :ص۱۱۸، القاعدۃ:۳۰۴)مثال: {ولا تنکحوا ما نکح آبائکم} تم نہ وطی کرو ان عورتوں سے، جن سے تمہارے باپ دادا نے وطی کی۔ (سورہ ٔ نساء:۲۲)