الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
قاعدہ(۲۵۶): {کُلُّ مَنْ کَانَ مَحْبُوْسًا بِحَقِّ مَقْصُوْدٍ لِغَیْرِہِ کَانَتْ نَفَقَتُہٗ عَلَیْہِ} ترجمہ: ہر وہ شخص جو دوسرے کے حقِ مقصودکے سبب محبوس ہو، اس کا نفقہ اس غیر پر واجب ہے ۔ (جمہرۃ القواعد الفقہیۃ:۲/۸۷۰، رقم المادۃ : ۱۷۶۹، قواعد الفقہ:ص۱۰۳، رقم القاعدۃ:۲۳۵)مثال: قاضی عام مسلمانوں کے نفع، عاملِ صدقات مملکتِ اسلامیہ، بیوی شوہر، اور غلام وباندی آقا کے حق مقصود کے سبب محبوس ہوتے ہیں، اس لئے ان کا نفقہ اصحابِ حقوق پر لازم ہے، یعنی قاضی اور عاملِ صدقات کابیت المال پر،بیوی کا شوہر پر ،اور غلام وباندی کا آقاپر ۔ (ہدایہ:۱/۴۱۴)قاعدہ(۲۵۷): {لا بَأسَ بِدَفْعِ الْمَالِ عَلٰی سَبِیْلِ الدَّفْعِ عَنِ الْبَعْضِ إذَا خَافَ ذِہَابَ الْکُلِّ} ترجمہ: جب پورے مال کے چـلے جانے کا اندیشہ ہو، تو بعض مال کے بچانے کے لئے ،بعض مال کے دیدینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ (قواعد الفقہ:ص۱۰۴، رقم القاعدۃ:۲۴۴)مثال: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعض اصحاب سے ارشاد فرمایا کہ تم اپنی جان کی حفاظت کے لئے اپنا مال دیدو، اور اپنے دین کی حفاظت کے لئے اپنی جان دیدو۔نوٹ: آپ کا یہ ارشاد اس قاعدہ کے تحت آتا ہے کہ ضرر عظیم سے بچنے کے لئے ضرر خفیف کو بر داشت کیا جائے گا۔ (شرح السیر:۴/۴)قاعدہ(۲۵۸): {لا تَرْجِیْحَ بِکَثْرَۃِ عَدَدِ الرُّوَاۃِ إنَّمَا ہُوَ بِفِقْہِ الرَّاوِي} ترجمہ: ترجیح، فقہ راوی کے سبب ہوتی ہے؛ نہ کہ عدد روات کی کثرت کے سبب ۔کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:{إلا الذین آمنوا وعملوا الصالحات وقلیل ماہم}۔(سورۂ ص :آیت؍۲۴) نیز یہ فرمان:{ولکن أکثر الناس لا یعلمون}۔ (سورۂ نحل: آیت ؍۳۸)، اسی طرح یہ فرمان:{وما أکثر الناس ولو حرصت بمؤمنین}۔ (سورۂ یوسف: آیت؍۱۰۹) سب اس پر دال ہیں کہ ترجیح کثرتِ عدد سے نہیں،بلکہ فقہ راوی سے ہوتی ہے ۔ (قواعد الفقہ:ص۱۰۴، رقم القاعدۃ:۲۴۵، شرح السیر الکبیر:۱/۹۵، باب الشہید وما یصنع بہ)