الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
قاعدہ(۳۳۴): {اَلْمُطْلَقُ لا یُحْمَلُ عَلَی الْمُقَیَّدِ فِي حُکْمَیْنِ مُخْتَلِفَیْنِ} ترجمہ: دو مختلف حکموں میں مطلق کو مقید پرمحمول نہیں کیا جائے گا۔ (شرح السیرالکبیر:۲/۱۴۸، باب النفل في دار الحرب ، قواعد الفقہ :ص۱۲۴، القاعدۃ:۳۲۹)مثال: کفارئہ قتلِ خطا میں آزاد کئے جانے والے غلام سے متعلق فرمانِ باری تعالیٰ ہے: {فتحریر رقبۃ مؤمنۃ}(سورئہ نساء:۹۲) کفارۂ قسم میں آزاد کئے جانے والے غلام سے متعلق ارشاد ہے: {أو تحریر رقبۃ}(سورۂ مائدہ: ۸۹) اورکفارۂ ظہارمیں آزاد کئے جانے والے غلام کے بارے میں فرمان ہے:{فتحریر رقبۃ من قبل أن یتماسا}۔ ( سورۂ مجادلہ:۳) اب آپ غور فرمائیں کہ تینوں حکم الگ الگ واقعات سے متعلق ہیں، پہلے حکم کفارہ میں رقبہ (غلام) مقید بوصفِ ایمان ہے، جبکہ دوسرے دوحکمِ کفارہ میں رقبہ مطلق ہے، لہٰذا اس مطلق کو مقید پر محمول نہیں کیا جائے گا،یعنی کفارۂ یمین اور کفارۂ ظہارمیں غلام کا مومن ہونا شرط نہیں ہوگا، بلکہ مومن وکافر ہر دو میں سے کسی کو بھی آزاد کرنے سے کفارۂ قسم وظہار ادا ہوجائے گا، البتہ کفارۂ قتلِ خطامیں آزاد کئے جانے والے غلام کا مومن ہونا صحتِ ادائِ کفارہ کے لئے شرط ہوگا، کیوںکہ وہ وصفِ ایمان کے ساتھ مقیدہے۔قاعدہ(۳۳۵): {اَلْمُطْلَقُ یَجْرِيْ عَلٰی إطْلاقِہٖ إذَا لَمْ یَقُمْ دَلِیْلُ التَّقْیِیْدِ نَصًّا أوْ دَلالَۃً} ترجمہ: مطلق اپنے اطلا ق پر جاری ہوگا ، بشرطیکہ نصاً یا دلالۃً ، دلیلِ تقیید موجود نہ ہو۔ (القواعد الکلیۃ والضوابط الفقہیۃ:ص ۲۹۰، شرح القواعد الفقہیۃ:ص۲۲۳، درر الحکام :۱/۶۲، رقم المادۃ:۶۴)فائدہ: ایسا امر جو تخصیص ،تعمیم اور تکرار وغیرہ پر دلالت کرنے والے قرائن سے مجرد ہو، اسے مطلق کہا جاتا ہے۔ اور جس امر کے ساتھ ان قرائن میں سے کوئی قرینہ موجود ہو وہ مقید کہلاتا ہے ۔ (درر الحکام:۱/۶۳)مثال۱: کسی شخص نے کسی درزی کے ساتھ اپنے جبہ کے سلوانے کا معاملہ کیا ، اور یہ شرط نہیں لگائی کہ وہ خود اسے سی دے گا، تو اس صورت میں درزی کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ یہ جبہ خود سی دے ، یا اپنے کسی