الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
قاعدہ(۲۸۶): {لا یَصِحُّ رُجُوْعُ الْقَاضِي عَنْ قَضَائِہٖ إذَا کَانَ مَعَ شَرَائِطِ الصِّحَّۃِ} ترجمہ: قاضی کا اپنے فیصلہ سے رجوع کرنا صحیح نہیں ہے جب کہ وہ شرائطِ صحت پر مبنی ہو۔ (الأشباہ:ص۳۳۹، قواعد الفقہ:ص۱۱۱، القاعدۃ:۲۷۵)مثال: اگر قاضی یوں کہے:’’ میں نے اپنے فیصلہ سے رجوع کرلیا، یا شاہدوں کی تلبیس (خلط ملط کرنا)میں واقع ہوا ہوں ،یا میں نے اپنے حکم کو باطل قرار دیا‘‘، تو اس کا یہ قول صحیح نہیں ہے اور فیصلہ نافذ ہی رہے گا۔ (الأشباہ:ص۳۳۹)قاعدہ (۲۸۷):{لا یُعْتَمَدُ عَلَی الْخَطِّ وَلا یُعْمَلُ بِہٖ لأنَّ الْخَطَّ یَشْبَہُ الْخَطَّ} ترجمہ: خط پر اعتماد نہیں کیا جائے گا اور نہ اس پر عمل کیا جائے گا، کیوںکہ ایک خط دوسرے خط کے مشابہ ہو تا ہے ۔ (شرح الأشباہ:۲/۱۶۸، قواعد الفقہ:ص۱۱۱، القاعدۃ:۲۷۶، رد المحتار:۴/۴۱۳، کتاب القضاء ، شرح السیر الکبیر: ۵/۱۰۶، باب العین یصیبہ المسلمون)خط: خط سے مراد ’’تحریر‘‘ ہے۔مثال: کسی آدمی کے قبضہ میں ایک جائیداد ہے، اب کوئی دوسرا شخص قاضی کے پاس آکر یہ دعوی کرے کہ یہ جائیداد وقف کی ہے اور بطور ثبوت اس نے ایک دستاویز پیش کی، جس پر گذرے ہوئے قاضیوں یا عادلوں کی تحریر موجود ہو، اور قاضی سے اس تحریر کے عین مطابق صدورِ فیصلہ کو طلب کرے ،تو قاضی کے لئے اس دستاویز کے مطابق فیصلہ کا اختیار نہیں ہے، کیوںکہ قاضی یا تو فیصلہ کرتا ہے بینہ (یعنی دوگواہوں کی گواہی)،یااقرار،یاقسم سے انکارکی بنیاد پر۔ رہی تحریر! تو وہ حجت بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی، کیوںکہ ایک خط دوسرے خط کے مشابہ ہوتاہے ۔