الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
قاعدہ(۳۱۹): {مَالُ الْمُسْلِم لا یَصِیْرُ غَنِیْمَۃً لِلْمُسْلِمِیْنَ بِحَالٍ} ترجمہ: مسلمانوں کا مال مسلمانوں کے لئے کسی بھی حال میں مال غنیمت نہیں ہوگا۔ (شرح السیرالکبیر : ۳/۱۰۴، باب ما یستعمل في دار الحرب ویؤکل ویشرب ، قواعد الفقہ:ص۱۱۷، القاعدۃ:۳۰۰)مثال: اگر مسلمانوں کے دوفرقوں میں جنگ و جدال ہو، یا دو مسلم ممالک ایک دوسرے سے برسر پیکا رہوں، اور اس لڑائی میں ایک فریق کا مال دوسرے فریق کے ہاتھ لگ جائے ،تو وہ کسی بھی صورت میں مالِ غنیمت نہیں ہوگا۔قاعدہ(۳۲۰): {مَا یَبْتَنِيْ عَلَی السِّمَاعِ لا یَثْبُتُ حُکْمُہٗ فِيْ حَقِّ الْمُخَاطَبِ مَا لَمْ یَسْمَعْ بِہ أَصْلَہٗ} ترجمہ: جوچیز سماع پر مبنی ہو، اس کا حکم مخاطب کے حق میں اس وقت تک ثابت نہیں ہوگا جب تک کہ وہ خود اسے نہ سن لے۔ (شرح السیر الکبیر:۱/۱۶۹، باب صلاۃ القوم الذین یخرجون إلی العسکر ، ۱/۱۰۲، باب الشہید وما یصنع بہ ، قواعد الفقہ :ص۱۱۷، القاعدۃ:۲۹۸)مثال: دار الاسلام میں کسی مقام پر اسلامی لشکر نے پڑاؤ کیا ، امیر المسلمین نے وہاں پندرہ دن اقامت کی نیت کرلی اور کسی کے ذریعہ اعلان بھی کرا دیا کہ یہاں ہمارا قیام پندرہ دن ہوگا، لہٰذا پوری نماز پڑھو، اب بعض لوگوں نے اس اعلان کو سنا اور بعض نہیں سن سکے، تو جن لوگوں نے سنا، ان پر پوری نماز پڑھنا لازم ہوگا، اور جو نہیں سن سکے، ان پر پوری پڑھنا لازم نہیں۔ (رحمانی)قاعدہ(۳۲۱): {مَا یَمْتَدُّ فَلِدَوَامِہٖ حُکْمُ الإبْتِدَائِ وَإلَّا فَلا} ترجمہ: جوشیٔ ممتد ہو تی ہے، اس کے دوام کو حکمِ ابتدا حاصل ہوتا ہے ورنہ نہیں۔ (الأشباہ و النظائر، قواعد الفقہ :ص۱۱۷، القاعدۃ:۲۹۹)فائدہ: ’’شیٔ ممتد‘‘ اسے کہتے ہیں، جو درازی کو قبول کرتی ہے، جیسے صحت و تندرستی۔ اور ’’غیرممتد‘‘ اس شیٔ کو کہا جاتا ہے، جو درازی کو قبول نہیں کرتی ہے، جیسے حیض۔