الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
(۳۰){اَلأَصْلُ أَنَّ مَنْ سَاعَدَہٗ الظَّاہِرُ فَالْقَوْلُ قَوْلُہٗ وَالْبَیِّنَۃُ عَلٰی مَنْ یَدَّعِي خِلَافَ الظَّاہِرِ} ترجمہ: اصل یہ ہے کہ ظاہر جس کا مساعد (مددگار) ہو، اس کا قول معتبر ہوتا ہے اور مدعی ٔ خلافِ ظاہر پر بینہ لازم ہوتا ہے۔مثال: زید عمرو پر دَین(قرض) اورضمان کا دعوی کرے اور عمرو منکر ہو،تو عمرو ہی کا قول معتبر ہوگا اورزید پر بینہ(دو گواہوں کا پیش کرنا) لازم ہوگا۔ اگر زید بینہ پیش کر دے ، تو پھر اس صورت میں اسی کا قول معتبر ہوگا۔(۳۱) {اَلأَصْلُ أَنَّ الْمَوْجُوْدَ فِي حَالَۃِ التَّوَقُّفِ کَالْمَوْجُوْدِ فِي أصْلِہٖ} ترجمہ: اصل یہ ہے کہ موجود بحالتِ توقف ، ایساہی ہے جیسے موجود فی الاصل۔مثال : کسی شخص نے بیع موقوف کی، پھر بیع کے بعد مبیع سے کچھ زوائد حاصل ہوئے، مثلاًمبیع بھینس تھی تو دودھ اور بچہ حاصل ہوا، اب اصل مالک نے اس بیع موقوف کی اجازت دی، توبیع میں بھینس کے ساتھ اس کے زوائد یعنی دودھ وبچہ دونوں داخل ہوں گے،گرچہ بوقتِ بیع یہ دونوں چیزیں موجود نہیں تھیں۔(۳۲){ألأصْلُ أنَّ النَّصَ یَحْتَاجُ إلَی التَّعْلِیْلِ بِحُکْمِ غَیْرِہٖ لا بِحُکْمِ نَفْسِہٖ} ترجمہ: اصل یہ ہے کہ نص اپنے ماسوا میں اثبات حکم کے لئے محتاج تعلیل ہوتی ہے، نہ کہ اس میں موجود حکم کے اثبات کے لئے۔مثال: اشیاء ستہ یعنی گیہوں، جو، نمک، کھجور، سونااور چاندی میں تحققِ رباکا حکم ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان:’’ الحنطۃ بالحنطۃ ، والشعیر بالشعیر، والملح بالملح ، والتمر بالتمر، والذہب بالذہب ، والفضۃ بالفضۃ، مثلا بمثل ، یدا بید ، فمن زاد أو استزاد فقد ربا ‘‘ سے ثابت ہے۔