الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
مثال: کسی شخص کو نماز یا وضو کے رکن کے متعلق یہ شک ہو، کہ اس نے اسے کیا یا نہیں ؟ تو اس پر اس رکن کا اعادہ واجب ہوگا ، کیوں کہ شک میں اصل فعل کا نہ ہونا ہے ۔ (الأشباہ والنظائر للسیوطی: ۱/۱۲۳)قاعدہ(۳۵): {اَلأصْلُ فِي الصِّفَاتِ الْعَارِضَۃِ الْعَدَمُ} ترجمہ: صفاتِ عارضہ میں اصل عدم ہے۔ (درر الحکام:۱/۲۶، المادۃ:۹، ترتیب اللآلي:ص۳۲۲ ، قواعد الفقہ:ص۵۹، القاعدۃ:۳۴ ، شرح القواعد:ص۱۱۷، القواعد الکلیۃ والضوابط الفقہیۃ:ص۱۴۸)مثال۱: دو آدمیوں نے عقد مضاربت کیا، پھر نفع کے حاصل ہونے یا نہ ہونے میں اختلاف پیدا ہوا، رب المال (جس کا سرمایہ ہے) کہتاہے نفع ہوا ہے اور مضارب (جس کی محنت ہے) کہتا ہے کوئی نفع نہیں ہوا، اس صورت میں مضارب کاقول معتبر ہوگا، کیوںکہ ربح (نفع) صفتِ عارض ہے اور اس میں اصل عدم (نہ ہونا )ہے تو مضارب مدعیٔ اصل ہے اور جو مدعیٔ اصل ہوتا ہے وہ مدعیٰ علیہ ہوا کرتاہے اور مدعیٰ علیہ کاقول ہی معتبر ہوتا ہے جب کہ مدعی کے پاس بینہ نہ ہو، ہاں اگر رب المال کے پاس (جوخلافِ اصل کا دعوی کرنے کی وجہ سے مدعِی ہے) بینہ یعنی دوگواہ موجود ہوں تو اس کا قول معتبر ہوگا۔ (الأشباہ:ص۸۳)مثال۲: بائع نے مشتری کو کوئی گاڑی فروخت کرکے اس کے حوالہ کردی، پھر مشتری اس گاڑی میں کسی عیب کے پائے جانے کا دعوی کرے،جب کہ بائع سلامتیٔ عیب کا مدعِی ہو، تو بائع کا قول یمین کے ساتھ معتبر ہوگا، اس لیے کہ اس کا دعوی اصل (صفاتِ عارضہ کا معدوم ہونا) کے موافق ہے، اور جو شخص موافقِ اصل وظاہر کا دعوی کرے، اسی کا قول معتبر ہوتا ہے۔ لیکن اگر مشتری اپنے دعوے پر بینہ پیش کردے تواب اس کا قول معتبر ہوگا۔ (القواعد الکلیۃ والضوابط الفقہیۃ:ص۱۴۹)قاعدہ(۳۶): {اَلأصْلُ فِي الْعُقُوْدِ الْمَالِیَۃِ بِنَائُ ہَا عَلَی التَّرَاضِي} ترجمہ: عقودِ مالیہ میں اصل یہ ہے کہ وہ باہمی رضامندی پر مبنی ہوتے ہیں۔ (جمہرۃ: ۲/۶۴۴، رقم:۲۰۳)