الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
نے جس قیمت میں اسے خریدا ، کی تعیین نہیں کی ، تو یہ بیع جہالتِ ثمن کی وجہ سے فاسد ہوگی ۔ البتہ اگر مجلسِ بیع میں ثمن کی یہ جہالت ختم ہوجائے ، خواہ ایجاب کے بعد ہی ہو، تو بیع صحیح ہوگی ۔ (درر الحکام:۱/۲۱۸، تحت المادۃ:۲۳۸)قاعدہ(۱۱۶): {اَلْجَیِّدُ وَالرَّدِيُّ فِي الرِّبَوِیَۃِ سَوَائٌ} ترجمہ: اموالِ ربویہ میں عمدہ اور ردی دونوں برابر ہیں۔ (شرح السیر الکبیر:۴/۸۱، باب ما یظہر علیہ أہل الشرک فیحرزونہ من أموال المسلمین ثم یصیبہ المسلمون ، قواعد الفقہ:ص۷۵، القاعدۃ:۱۰۷)مثال۱: ایک کوئنٹل عمدہ گیہوں کی بیع، دو کوئنٹل ردی گیہوں کے عوض ،تحققِ ربوا کی وجہ سے حرام ہے، کیوں کہ اموالِ ربویہ میں وصفِ عمدہ و ردی معتبر نہیں ہے۔ (ہدایہ:۳/۶۱، باب الربا، الفقہ الحنفي في ثوبہ الجدید:۴/۲۴۰، مکتبۃ دار القلم دمشق)مثال۲: حضر ت ابو ہریرہ ؓسے یہ روا یت مر وی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی شخص کو خیبر پر عامل بنا یا، کسی وقت وہ خیبر سے واپس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کچھ جنیب(ایک قسم کی عمدہ کھجور) لے کر آئے، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: کیا خیبر کی ساری کجھور یںایسی اچھی ہوتی ہیں؟ اس نے کہا نہیں یا رسول اللہ !سا ری کھجو ر یں ایسی نہیں ہوتیں،لیکن ہو تا یہ ہے کہ ہم دو صاع کے عوض اس قسم کی ایک صا ع خر ید تے ہیں، یعنی عا م قسم کی دو صاع کھجو ر لے دے کر یہ اعلیٰ قسم کی ایک صاع کھجور لیتے ہیں ،اور تین صاع دے کر دو صاع لیتے ہیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا: ایسا نہ کرو ، بلکہ ایسا کرو کہ ملی جلی اچھی بری کو ملاکر ان کو درا ہم سے بیچو ،پھر درا ہم سے جنیب کو خرید لو ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اموالِ ربویہ میں جید اور ردی دونوں برابر ہیں، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بربناء تحققِ ربا صحابی ٔ مذکور کو ان کے اس عمل سے منع کیا، اور ا س کا متبادِل طریقہ یہ بتلادیا کہ دوصاع ادنیٰ درجہ کی کھجوریں دراہم کے عوض بیچ دو،پھر ان دراہم سے جنیب خریدلو تو یہ جائز ہوگا، کیوں کہ