الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
تقریظ فقیہ عصر، محدث زماں، نمونۂ اسلاف، حضرت مولانا مفتی عبد اللہ صاحب دامت برکاتہم رئیس جامعہ مظہر سعادت ہانسوٹ(گجرات) ادلۂ شرعیہ کوسامنے رکھ کرنئی ترتیب و تہذیب کے ساتھ شریعت مطہرہ کے احکام کی تدوین وتنقیح کو ’’فقہ ‘‘سے موسوم کیاجاتاہے،علم فقہ میں ابتداء ا ًجزئیات وفروع زیربحث آئے،پھربتدریج اس کے اصول وضوابط اورقواعدوکلیات طے پاتے گئے۔ اصول فقہ کاتعلق عموماًکلمات عربیہ سے پیدا شدہ احکام کے قواعداوران کلمات والفاظ کوپیش آنے والے نسخ وتر جیح سے ہوتاہے۔قاعدۂ فقیہ حکم اکثری ہوتاہے، جواپنی اکثرجزئیات پرمنطبق ہوکراسکے احکا م کی شناخت کاکام دیتاہے۔ضابطہ اورقاعدہ میں فرق یہ ہے کہ ضابطۂ فقہیہ کسی خاص باب سے متعلق ہوتاہے، جبکہ قاعدۂ فقہیہ کادائرہ وسیع ہوتاہے۔فقہ میں جس کلام کاآغازلفظ کل سے ہواس پرکلیہ کااطلاق کردیاجاتاہے، خواہ وہ ضوابط کے قبیل سے ہویاقواعد کے قبیل سے۔ ابتدائی کتب فقہ کابنظرغائرمطالعہ کیاجائے توانکی بہت سی عبارات کواصطلاحی اعتبارسے ’’قوائدفقہ ‘‘سے تعبیرکیاجاسکتاہے۔اس اعتبارسے امام ابویوسفؒ کی ’’کتاب الخراج‘‘ اورامام محمد ؒکی’’مبسوط‘‘ کوخصوصی امتیاز حاصل ہے ۔لیکن ’’ القواعد الفقہیۃ‘‘ کااولین ماخذ جوبعدکی تصنیفات کیلئے بنیادبنا،وہ عبیداللہ بن الحسین المعروف بابی الحسن الکرخیؒ کارسالہ ہے، جو’’ أصول الکرخي ‘‘سے موسوم ہے۔فقہ حنفی میں اصول الکرخی کے علاوہ قاضی ابوزیدالدبوسیؒ کی’’ تاسیس النظر‘‘ ابن نجیم مصریؒ کی ’’الأشباہ والنظائر‘‘ابوسعیدخادمیؒ کی’’خاتمہ‘‘ ۔’’مجامع الحقائق‘‘ قواعدفقہ کی اہم