الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
ِ کلیہ ہونا ثابت ہو گیا تو بعض جزئیات کا اس کے مقتضیٰ و حکم سے تخلف، انہیں ان کی کلیت سے خارج نہیں کرتا۔ نیز غالب اکثری بنگاہ شریعت اعتبار قطعی رکھتا ہے‘‘۔قواعد فقہیہ اور قواعد اصولیہ کے مابین فرق : علم فقہ اور علم اصول فقہ کے مابین چولی دامن کا ساتھ ہونے کی وجہ سے بسا اوقات آدمی ان دونوں کو ایک ہی یقین کرلیتا ہے، یہ بات معقول بھی ہے، کیوںکہ ان میں سے ایک اصل اور دوسرا اس کی فرع ہے، جیسے درخت اور اس کی شاخیں کہ ان دونوں میں وحدت ہے، چنانچہ جو شخص اصولی ہوگا وہ فقیہ بھی ہوگا، اور جو فقیہ ہوگا وہ اصولی بھی ہوگا، فقیہ ہو اور اصولی نہ ہو ایسا نہیں ہوسکتا۔ کیوںکہ فقیہ وہ ہے جو استنباط مسائل کی قدرت رکھے، اور استنباط مسائل کی قدرت اصولوں کو جانے بغیر ممکن نہیں ہے۔ علم فقہ اور علم اصول فقہ میں اس اتحاد کے باوجود یہ دونوں علم ایک دوسرے سے الگ الگ او رمستقل حیثیت کے مالک ہیں، کیوںکہ دونوں کا موضوع، دونوں سے استمداد، دونوں کا ثمرہ، اور دونوں کو پڑھنے کی غرض و غایت جداجدا ہے، مثلاً علم اصول فقہ کا موضوع، اجمالی دلائل فقہ اور احکام ہیں۔ اور علم فقہ کا موضوع، افعال مکلفین، یعنی مکلف سے سرزد ہونے والے ہر فعل کا حکم شرعی کیا ہے؟ پھر قواعدعلم اصول فقہ، قواعد علم فقہ سے الگ ہیں۔ علم اصول فقہ اور علم فقہ دونوں کے قواعد میں فرق و تمیز سب سے پہلے امام شہاب الدین قَرَافی نے کیا ۔ جیسا کہ آپ اپنی کتاب ’’اَلفُرُوْقْ‘‘ کے مقدمہ میں فرماتے ہیں: ’’شریعت محمدیہ اصول و فروع پر مشتمل ہے اور اس کے اصول کی دو قسمیں ہیں:(۱) اصول فقہ : جس میں درحقیقت عربی الفاظ سے پیدا ہونے والے قواعد ہیں۔۔۔۔۔الخ۔(۲) قواعد کلیہ فقہیہ : جو اسرار و حِکمِ شرع پر مشتمل ہیں۔۔۔۔۔الخ۔ ایک دوسری جگہ یہ فرماتے ہیں، کہ تمام قواعد، اصول فقہ میں مستوعب نہیں بلکہ ائمۂ فتویٰ و فقہاء کے نزدیک شریعت اسلامی کے اور بھی بہت سے قواعد ہیں، جو کتب اصول میں بالکل ہی نہیں پائے جاتے۔