الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
مثال۱: پانی نہ ہونے کی وجہ سے تیمم جائز ہے، لیکن جب پانی مل جائے اور اس کے استعمال پر قدرت بھی ہو تو تیمم باطل ہوگا۔مثال۲: کوئی شخص دردِسر، چکّر یاضعف و کمزوری کے سبب قیام پر قادر نہ ہو، تواس کے لئے ترکِ قیام کرکے بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز ہے، لیکن جب وہ قیام پر قادر ہوجائے، تو یہ جواز ختم ہوگااور اس پر قیام لازم ہوگا۔قاعدہ(۳۰۸): {مَا حَرُمَ أخْذُہٗ حَرُمَ إعْطَائُ ہٗ} ترجمہ: جس چیزکا لینا حرام ہے، اس کا دینا بھی حرام ہے۔ (الأشباہ والنظائر لإبن نجیم :ص۴۸۶، الأشباہ والنظائر للسیوطي:۱/۳۲۲ ، جمہرۃ القواعد الفقہیۃ : رقم القاعدۃ :۲۰۵۴، درر الحکام :۱/۴۳ ، المادۃ :۳۴ ، ترتیب اللآلي:ص۱۰۲۳، قواعد الفقہ:ص۱۱۵، القاعدۃ:۲۹۱، شرح القواعد:ص۲۱۵)مثال۱: سود اور رشوت لینا اور دینا دونوں حرام ہیں، لیکن اگر اپنی جان و مال کا اندیشہ ہو ، حاکم وقت یا کسی اور آفیسر کے نزدیک اپناجائز حق وصول کرنا ہو،اور وہ بلا رشوت دیئے صاحبِ حق کو اس کا حق نہ دے، تو ایسی صورت میں رشوت دیکر اپنے حق کو وصول کرنے کی گنجائش ہے، اسی طرح جس شخص سے کسی شر کا اندیشہ ہو، یا برائی واقع ہونے کا ڈر ہو تو اس کو کچھ دیدینا جائز ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :’’ مَنْ أرَادَ أنْ یُبْرِأَ أبَوَیْہِ فَلْیُکْرِمِ الشُّعَرَائَ‘‘۔جو شخص یہ چاہے کہ وہ اپنے والدین کو بَری کریں، اسے چاہئے کہ وہ شعراء کا اکرام کرے۔ (غمز عیون البصائر:۱/۴۴۹)وضاحت: فقہاء کرام نے اس بات کی صراحت فرمائی ہے کہ اگر اپنا جائز حق بلارشوت دیئے حاصل نہ ہو سکتا ہو،اور اسی طرح کسی انسان کی بنیادی ضرورتیں بلا سودی قرض لیے پوری نہ ہوسکتی ہوں ، تو ایسے مواقع پر بقدر ضرورت رشوت دینے اور سودی قرض لینے کی گنجائش ہے،جیسا کہ فقہ کے دیگر قواعد ’’الضرورات تبیح المحظورات‘‘۔ اور ’’الضرورۃ تتقدر بقدرہا‘‘ سے مفہوم ہوتا ہے۔ لیکن رشوت وسود لینا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے، لہذا لینے والے خوب غور کرلیں ۔ (رحمانی)