الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
بررہ یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں ایک جماعت تو حفظ احادیث کی طرف متوجہ تھی، مگر دوسری جماعت وہ تھی، جس نے استخراج مسائل و استنباط احکام کو اپنا محور بنا رکھا تھا، چنانچہ یہی جماعت، فقہاء صحابہ کے نام سے موسوم ہوتی ہے؛ اس جماعت میں پھر تین گروہ ہوئے: (۱) کثیر الفتاوی صحابہ، جیسے حضرت عمر بن الخطاب، حضرت علی بن ابی طالب، حضرت عبد اللہ بن مسعود ، حضرت عائشہ وغیرہم رضی اللہ عنہم۔ (۲) متوسط الفتاوی صحابہ، جیسے حضرت ابوبکر صدیق، حضرت انس بن مالک، حضرت ابوسعید خدری ، حضرت ام سلمہ وغیرہم رضی اللہ عنہم۔ (۳) قلیل الفتاوی صحابہ، جیسے حضرت ابوالدرداء، حضرت ابوعبیدہ، حضرت ابی بن کعب، حضرت ابوذر وغیرہم رضی اللہ عنہم۔ ( مقدمہ ابن خلدون :ص۴۴۶) اگر بغور دیکھا جائے تو فقہ اسلامی کو اپنے نشو و نما کے اعتبار سے تین مختلف ادوار سے گذر نے کے بعد فن کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔دور اول : بعثت نبوی سے وفات نبوی تک، اس دور میں خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدسہ سے احکام معلوم کرلئے جاتے تھے۔دور ثانی : بعد ازوفات نبوی کا زمانہ، اس مرحلہ میں صحابہ کرام اجتہاد و استخراج کے ذریعہ مسائل جدیدہ کو حل کیا کرتے تھے؛ جس کے سبب صحابہ کرام میں خصوصاً اصحاب فقہ و فتاوی کی ایک خاصی تعداد پائی جاتی ہے۔ چناںچہ ابن خلدون کی تحقیق کے مطابق صحابہ کرام میں ایک سو تیس حضرات، فقہ وفتاوی کی رونق تھے، جن میں مرد بھی تھے اور عورتیں بھی تھیں؛ ان میں سات صحابہ اپنی فقہی خدمات اور کثرت فتاوی کی وجہ سے ’’مکثرین‘‘ کہلاتے ہیںاور تیرہ حضرات کا ’’متوسطین‘‘ میں شمار ہے اور ان کے علاوہ بقیہ صحابہ کو ’’مقلِین‘‘ کہا جاتا ہے، ان کے اسماء گرامی کی طرف سطور بالا میں اشارہ ہوچکا۔