الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
قاعدہ(۳۳۲): {اَلْمَشَقَّۃُ وَالْحَرَجُ إنَّمَا یُعْتَبَرُ فِي مَوْضَعٍ لاَ نَصَّ فِیْہِ} ترجمہ: مشقت اور حرج کا اعتبار غیر منصوص مقام میں ہی ہوتا ہے، منصوص میں نہیں۔ (الأشباہ والنظائر لإبن نجیم:ص۳۰۲ ، قواعد الفقہ :ص۱۲۲، القاعدۃ:۳۲۲)فائدہ: جس شیٔ کے بارے میں قرآن کریم یا حدیث نبویؐ میں کوئی حکم شرعی بصراحت موجود ہو،اس کو’’ منصوص‘‘ ،اور جس کے متعلق کوئی حکم صریح موجود نہ ہو، اس کو ’’غیر منصوص‘‘ کہاجاتاہے۔مثال: آج ہمارے اس دور میں بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ سودی لین دین کی حرمت کی وجہ سے مسلمانوں کو کافی حرج و مشقت کاسامنا کرنا پڑرہا ہے، کہ وہ اپنے کاروبار کو ترقی دینے کے لئے سودی رقم نہیں لے سکتے، تو کیا سود کی حرمت ختم ہوگی؟ اور اس حرج ومشقت کو رفعِ حرمت کے ذریعے ختم کیا جائے گا؟تو جواب یہ ہوگاکہ اس حرج اور مشقت کی وجہ سے سود کی حرمت ہرگز قیامت تک ختم نہیں ہوگی، کیوںکہ سود کی حرمت منصوص ہے اور منصوص میں حرج و مشقت کا اعتبار نہیں ہوتا ہے ۔ نص قرآنی:{یا أیہا الذین آمنوا لا تأکلوا الربوا}۔ ’’اے ایمان والو! تم سود نہ کھائو ‘‘۔ اورحضرت جابر بن عبد اللہ ؓ کی روایت :’’ لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آکل الربوٰ ومُوْکِلَہٗ وکاتبہ وشاہدیہ ، وقال: ہم سواء‘‘۔ ’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی سود کھانے والے، کھلانے والے ،اس کے لکھنے والے، اور اس کے گواہوں پر، اور فرمایا: یہ سب گناہ میں برابر کے شریک ہیں‘‘۔ (صحیح مسلم:۲/۲۷، کتاب البیوع ، باب الربوا)قاعدہ(۳۳۳): {اَلْمَصِیْرُ إلَی الْبَدَلِ عِنْدَ فَوَاتِ الْأصْلِ لا مَعَ قِیَامِہٖ} ترجمہ: اصل کے فوت ہونے کی صورت ہی میں بدل کو اختیار کیا جاتا ہے، نہ کہ اس کی موجود گی میں۔ ( قواعد الفقہ :ص۱۲۳، القاعدۃ:۳۲۴، شرح السیرالکبیر)مثال: مہینوں کی ابتدا و آغاز میں چاند ہی کا اعتبارہے، اور وہی اصل بھی ہے، لیکن چاند نہ دکھائی دینے کی صورت میں تیس دن پورے کئے جائیں گے، جو بدل ہے۔