الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
قاعدہ(۹۶): {اَلتَّعْیِِیْنُ بِالْعُرْفِ کَالتَّعْیِیْنِ بِالنَّصِ} ترجمہ: تعیین بالعرف تعیین بالنص کی مانند ہے۔ (درر الحکام:۱/۵۱، المادۃ:۴۵ ، قواعد الفقہ:ص۷۱، القاعدۃ:۸۸ ، القواعد الفقہیۃ:ص۵۶، شرح القواعد الفقہیۃ:ص۲۴۱)مثال: اگر کسی آدمی نے یہ قسم کھائی کہ وہ گوشت نہیں کھائے گا تواس کی یہ قسم گائے ، بکری اورمرغی وغیرہ کے گوشت پرواقع ہوگی، کیوںکہ عرف میں اسی کو گوشت کہتے ہیں۔ رہا لحمِ سمک (مچھلی کا گوشت) تو وہ قسم میں داخل نہیں ہوگا، کیوںکہ عرف میں اس کو گوشت نہیں کہا جاتا ہے، اور قاعدہ ہے کہ:’’ تعیین بالعرف، تعیین بالنص کی مانند ہے‘‘۔ اس لیے اس کی قسم اسی شی ٔ پر واقع ہوگی جس کو عرف میں گوشت کہا جاتا ہے ۔قاعدہ(۹۷): {اَلتَّعْیِیْنُ مَتٰی کَانَ مُفِیْدًا یَجِبُ اِعْتِبَارُہٗ} ترجمہ: جب تعیین مفید ہو تو اس کا اعتبار کرنا واجب ہے۔ (شرح السیر الکبیر:۲/۲۴۴، باب الإجارۃ لا یکون تسمیۃ صحیحۃ ، قواعد الفقہ:ص۷۱، القاعدۃ:۸۹، الأشباہ والنظائر لإبن نجیم الحنفي:ص۲۱۱، کتاب الوکالۃ، دار الکتب العلمیۃ بیروت ، ۱/۱۳۴، الوکالۃ ، ہندی)مثال۱: جب مؤکل اپنے وکیل پر کسی قسم کی قید لگائے اور وہ قید ، قیدِمفید ہو تو مطلقاً اس کا اعتبار کیا جائے گا اور اگر وہ قید من وجہٍ نافع اور من وجہٍ ضارّ ہو، تواگر مؤکل نے اس قید کو نفی کے ساتھ مؤکد کیاتو معتبر ہوگی، ورنہ نہیں۔ (شرح السیر:۲/۱۲۴، الأشباہ والنظائر لإبن نجیم الحنفي:ص۲۱۱، کتاب الوکالۃ، دار الکتب العلمیۃ بیروت ، ۱/۱۳۴، الوکالۃ ، ہندی)مثال۲: رب المال نے مضارب کے لیے شہر کی تعیین کی اور کہا کہ اسی شہر میں تجارت کی جائے، یا سامان متعین کردیا کہ اسی کو فروخت کیا جائے، تو مضارب کے لیے رب المال کے حکم کو پورا کرنا ضروری ہوگا، کیوں کہ قاعد ہ ہے:التعیین متی کان مفیدا یجب اعتبارہ ۔ (ہدایہ:۳/۲۴۴، کتاب المضاربۃ)