الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
قاعدہ(۱۲۱): {اَلْحُرُّ لا یَدْخُلُ تَحْتَ الْیَدِ فَلا یُضْمَنُ بِالْغَصَبِ وَلَوْصَبِیًّا} ترجمہ: آزاد انسان پر قبضہ ثابت نہیں ہوتا، لہٰذا اس کو غصب کرنے کی صورت میں ضمان (تاوان) واجب نہیں ہوگا، خواہ وہ بچہ ہی ہو۔ (قواعد الفقہ:ص۷۶، القاعدۃ:۱۱۴، الأشباہ لإبن الملقن :۲/۴۴۶ ، الأشباہ لإبن نجیم:ص۴۲۸ ، الأشباہ للسیوطي:۱/۲۷۷، ترتیب اللآلي:ص۶۳۹)مثال۱: اگر کسی شخص نے آزاد بچے کو غصب کیا اور وہ بچہ اچانک یا بخار میں مبتلا ہوکر غاصب کے پاس مرگیا تو غاصب پر ضمان واجب نہیں ہوگا۔ (الأشباہ:ص۶۶، مکتبہ إشاعۃ الإسلام دہلی الہند)مثال۲: اگر کسی شخص کی آزاد بیوی خود سے بھاگ گئی یا کسی شخص نے اسے اغواء کرلیا، تو شوہر پر اس کی طلب وتلاش لازم نہیں ہوگی، کیوں کہ حرہ(آزاد) کے گم ہونے پر ضمان نہیں آتا، کہ طلب وتلاش لازم ہو، بخلاف لونڈی کے ،کہ اگر وہ کسی کے نکاح میں ہو اور بھاگ جائے تو زوج پر تلاش لازم ہے، اس واسطے کے اس کے گم ہونے میں زوج پر ضمان لازم ہے، کذا في حاشیۃ المدني۔ فلو تسلّمہا فہربت لم یلزمہ طلبہا الخ ۔ (شامي:۴/۲۳۵، دار الکتاب دیوبند، غایۃ الأوطار اردو:۲/۶۷، کتاب النکاح ، باب المہر)توضیح: لوگوں میں اصل حریّت ہے۔ (شرح السیر:۴/۷۱)قاعدہ(۱۲۲): {حُرْمَۃُ الْمِلْکِ بِاِعْتِبَارِ حُرْمَۃِ الْمَالِکِ} ترجمہ: شیٔ مملوکہ کی حرمت ، حرمتِ مالک کے اعتبار سے ہوتی ہے۔ (قواعد الفقہ:ص۷۶، القاعدۃ:۱۱۳، شرح السیر الکبیر:۱/۱۴۷، ۱۴۸، باب الجہاد ما یسع منہ وما لا یسع،۱/۸۹)مثال: حربی شرعاً محترم نہیں ہے، اس لئے اس کی مملوکہ شیٔ بھی محترم نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ حربی کے اموال کو لینا جائز ہے۔ مسلم محترم ہے، اس لئے اس کی مملوکہ شیٔ بھی محترم ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کے مال کوبلا سببِ شرعی لے لینا جائز نہیں ہے۔