الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
متقدمین و متاخرین علماء نے علم قواعد فقہ کی جانب خاص توجہ دی، کیوںکہ مذاہب فقہاء کے متعدد ہونے، ان کے طریقہائے استنباط کے الگ الگ ہونے، اور مسائل فقہیہ کی کثرت و تنوّع اس بات کی متقاضی تھی کہ کچھ ایسے قواعد کلیہ اور اصول عامہ وضع کئے جائیں جو ان بے شمار مسائل متفرقہ و مختلفہ کو یکجا کرسکیں،تاکہ حکم شرعی کاطالب الگ الگ جزئیات اور مختلف مسائل کے احکام میں سرگرداں و حیران نہ ہو، چنانچہ کبار فقہاء کرام نے ائمہ مجتہدین کے تمام مسائل اجتہادیہ، اور ان کے اصول استنباط کو سامنے رکھ کر ان علل کا سراغ لگا لیا جن کی بنیادوں پر ان حضرات نے استنباط فرمایا ہے، اولاً ان حضرات نے ان احکامِ متشابہ کی انواع کا استقصاء کیا جو مسائل مختلفہ کو حاوی اور جامع ہیں، پھر شبیہ کو اس کی شبیہ کے ساتھ اور نظیرکو اس کی نظیر کے ساتھ جمع فرماکر اسے کسی ایک ضابطہ کے تحت لے آئیں، یہی وہ ضابطہ اور قاعدہ ہے، جو تمام مسائل متحدہ کو ایک حکم کے تحت جمع کرکے انہیں ایک لڑی میں پروکر رکھ دیتا ہے۔ حضرات فقہاء کرام کا یہی عظیم الشان ، جلیل القدر عمل، احکام فقہیہ کی علل کے استنباط و استخراج کے لیے اساس سلیم، اور قیاس صحیح کی حیثیت رکھتا ہے۔ علماء مالکیہ کے ایک بڑے عالم (جن کی فقہ اور اصول فقہ پر بہت سی کتابیں ہیں) شہاب الدین قَرَافی فرماتے ہیں: شریعت محمدیہ کے مسائل، اصول اور فروع پر مشتمل ہیں، اور اس کے اصول کی دو قسمیں ہیں:(۱) اصول فقہ : وہ قواعدِ احکام جو بالخصوص عربی الفاظ کی پیداوار ہیں، مثلاً امر کا وجوب کے لیے ہونا، اور نہی کا تحریم کے لیے۔ عام ، خاص، مشترک، اور موؤل وغیرہ۔(۲) قواعد کلیہ فقہیہ : یہ وہ قواعد فقہیہ ہیں جو اسرار و حِکَمِ شرع پر مشتمل ہیں، اور ہر قاعدہ اپنے اندر بے شمار و بے حساب مسائل شریعت کو سموئے ہوئے ہے۔