الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
ہوگا، اس لیے کہ ان کے حق میں اسلام کی دلیل اقرارِ رسالتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے، معلوم ہوا کہ کافر کو حکماً مسلمان مان لیا گیا، کیوں کہ حقیقت یعنی اقرارِ رسالتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہے۔ (شرح کتاب السیر الکبیر:۱/۱۰۶)مثال۲: دار الحرب میں امان طلب کرنے والے شخص نے اسلام قبول کیا اور اس کی اولادِ صغار دار الحرب میں ہوں، تو وہ باپ کے تابع ہو کر مسلمان نہیں ہوںگی، اگر اس مستامن مسلم کا انتقال ہوا اور ان بچوں کا چچا انہیں دارالحرب سے دار الاسلام اپنے باپ کی قبر کی زیارت کے لئے لے آیا تو چچا کو اس بات کا حق ہے کہ وہ انہیں دارالحرب واپس کردے، کیوںکہ جس وقت چچا انہیں زیارت کے لئے لے آیا، ان کے لئے بطریق تبعیت اسلام کا حکم ثابت نہیں ہوگا؛ کیوںکہ جب باپ کی حیات میں ان بچوں کے لئے بطریق تبعیت حکم اسلام ثابت نہیں ہوا تو مرنے کے بعد بھی ثابت نہ ہوگا۔ ’’ لأن الشيء إنما یقدر حکماً إذا کان یتصور حقیقۃ ‘‘۔ (شرح السیر:۵/۵۶)قاعدہ(۵۸): {إنَّمَا الأعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ} ترجمہ: تمام اعمال کا حکم نیتوں پرموقوف ہے۔ (صحیح البخاری :۱/۲، باب بدء الوحي، شرح السیر الکبیر:۴/۱۵۰،باب ما یکرہ في دار الحرب وما لا یکرہ ، الأشباہ للسیوطي:۱/۳۵ ، قواعد الفقہ:ص۵۲، القاعدۃ:۱)مثال: کسی شخص کو راستہ میں ایک درہم ملا، اس نے اس کو اس نیت سے اٹھا لیا کہ اصل مالک کے ملنے پر اسے واپس کردوںگا، گھر جاکر اسے محفوظ مقام پر رکھا اور وہ درہم بلا تعدی(زیادتی) ضائع ہوگیا تو شخصِ مذکور ضامن نہیں ہوگا، کیوںکہ اس نے بہ نیتِ امانت اس درہم کو لیا تھا اور ضیاعِ امانت کا حکم یہ ہے کہ اگر وہ بلا تعدی ضائع ہو تو امین ضامن نہیں ہوتا۔ البتہ اسی درہم کو اگر وہ شخص اس نیت سے اٹھائے کہ اصل مالک کو واپس نہیں کروںگا تو ضیاع کی صورت میں ضامن ہوگا، کیوںکہ اس نے بہ نیتِ غصب اٹھایاہے اور غاصب شیٔ مغصوب کے ضائع ہونے پر ضامن ہوا کرتا ہے۔