الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
قاعدہ(۳): {الإجَازَۃُ إنَّمَا تَصِحُّ ثُمَّ تَسْتَنِدُ إلٰی وَقْتِ الْعَقْدِ} ترجمہ: اجازت صحیح ہوتی ہے، پھر وقتِ عقد کی طرف منسوب ہوتی ہے۔ (قواعد الفقہ:ص۵۳، رقم القاعدۃ:۴)مثال۱: محل عقد کا فی الحال قابلِ عقد ہونا شرط ہے، تاکہ بحالتِ اجازت اس میں حکمِ عقد ثابت ہوسکے اور وہ وقتِ وجودِ عقد کی طرف منسوب ہو؛ پس اگر محلِ عقد ناپید ہوتو عقد نافذ ہی نہیں ہوگا، کیوںکہ اجازت، وجودمیں معتبر ہوتی ہے؛ معدوم میں نہیں۔مثال۲: اگر صغیر عاقل ،وکیل اور ماذون ہو تو اس کا تصرف صحیح ہے، اور اگر غیر ماذون ہے تو اس کا تصرف صحیح نہ ہوگا، اور اس کی وکالت وتصرف اذنِ ولی پر موقوف ہوگا۔ اسی طرح اگر صغیر عاقل غیرماذون،بنفسِ نفیس بیع یا اجارہ کا معاملہ کرے، تو یہ ولی کی اجازت پر موقوف ہوگا، اور ولی اجازت دے تویہ عقد، انعقادِ عقد کے وقت سے درست ہوگا، کیوں کہ قاعدہ ہے: الإجازۃ إنما تصح الخ۔ (الدر المختار مع الشامي:۸/۲۴۲)مثال۳: ایک شخص نے کسی کا موبائل غصب کیا پھر اس مغصوب موبائل کو دوسرے کے ہاتھ فروخت کردیا، اور مشتری نے وہ موبائل اپنے کسی دوست کو ہبہ کردیا ، اگر اصل مالک بیع کی اجازت دے، تو یہ ہبہ شیخین کے نزدیک استحساناً درست ہوگا،کیوں کہ اصل مالک کی اجازت وقتِ عقد کی طرف منسوب ہوگی ، اور بوقتِ ہبہ یہ موبائل واہب کی ملک ہونے کی وجہ سے ہبہ درست ہوگا۔ (ہدایہ:۳/۷۳)قاعدہ(۴):{الإجَازَۃُ إنَّمَا تَلْحَقُ الْمَوْقُوْفَ لا الْبَاطِلَ} ترجمہ: اجازت، موقوف ہی کو لاحق ہوتی ہے، نہ کہ باطل کو۔ (شرح السیر الکبیر:۵/۱۰۹، باب ما یختلف فیہ أہل الحرب وأہل الذمۃ من الشہادات والوصایا، قواعد الفقہ:ص۵۳، رقم القاعدۃ:۵) مثال جزء اول: کسی حربی کے لئے مسلم نے وصیت کی، پھر موصی کی موت سے پہلے یا موصی کی موت کے بعد موصیٰ لہ (جس کے لئے وصیت کی گئی)نے اسلام قبول کیا تو وصیت باطل ہو گی،