الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
کلماتِ حمیم صدیق محترم حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب فلاحی استاذتفسیر و حدیث ،جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا حق جل مجدہ نے اس عالم کو ایک عظیم مقصد کے تحت وجود بخشا ہے، نیز اس کا لطف و کرم اور فضل واحسان ہے کہ اس نے اس صفحۂ ہستی اور عالم گیتی کی گونا گوں مخلوقات میں حضرت انسان کو مخدوم کائنات، محبوب کائنات اور مقصود کائنات ہونے کاشرف بخشاہے جیساکہ{ولقد کرّمنا بني آدم} (القرآن ) ’’الدنیا خلقت لکم وأنتم خلقتم للآخرۃ‘‘ اس پر شاہد عادل ہیںاور اسی لئے عبادات، معاملات، عقوبات اور اخلاقیات سے متعلق مختلف احکامات کا مکلف بھی حضرت انسان کو بنایاگیا ۔ تاکہ وہ قرآن وسنت میں منصوص آیات وروایات کی روشنی میں مطلوب مخلی عن الرذائل ہوکر محلی بالفضائل بن کر رضاء رب کو اپنا مطلوب و مقصود بنائے، اور یہی ایک انسان کا مقصد زند گی ہے، کیوں کہ اگر آپ صفحا ت کتب مھمہ کی ورق گردانی کر یںگے تو اس نتیجہ پر پہو نچیںگے کہ براہ راست کتاب وسنت میں غور فکر کرکے انہیں معمول بہا بنانا ہر کس و ناکس کا کام نہیں جیساکہ مقولہ مشہور ہے کہ:’’ لکل مقام مقال ولکل فن رجال‘‘ چنانچہ علماء مجتہدین نے پتامار محنت و مشقت کے بعد ایسے اصول وضوابط بنائے کہ جن کی رہنمائی میں انسان اپنے مولی کی رضاوالی زندگی بسر کرے اور الٰہی الطاف وعنایات کا مستحق بنے۔انہی اصول وضوابط سے مستخرج ومستنبط احکا م و مسائل کو علم فقہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔گو کہ زمانے قدیم میں لفظ فقہ اپنے اندر ایک وسیع مفہوم رکھتا تھا جیسا کہ صاحب مسلم الثبوت رقم طرازہیں کہ زمانۂ قدیم میں فقہ علم حقیقت علم طریقت اور علم شریعت کے مجموعہ کو شامل تھا ۔