الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
نہیں ہے، کیوں کہ اگر شخص مذکور اس دَین کے بارے میں یہ صراحت کردے کہ جنین کا یہ دَین مجھ پر اس لئے لازم ہوا کہ میں نے اس سے ایک معاملہ کیا تھا تو اس پر یہ اقرار لازم نہیں ہوگا، کیوںکہ جنین کے ساتھ معاملہ درست ہی نہیں، اور اگر اس دَین کے بارے میں یہ صراحت کردے کہ میں نے جنین کے مال کو ضائع کردیا تھا، اس لئے مجھ پر اس کا ضمان لازم ہے تو اس کا یہ اقرار بالدَین صحیح ہے، اور جب اقرار بالدین للجنین مجمل ہے، یعنی وجوب دَین کا سبب معلوم ہی نہیں تو وجوب میں شک واقع ہوگا اور دین واجب نہیں ہوگا۔ظاہر پر اظہر اولیٰ کس طرح؟ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عاقل، بالغ مسلمان کا ظاہرِ حال یہی ہے کہ وہ اپنے کلام سے صحت ہی کا قصد و ارادہ کرتا ہے، اس لئے اس کے کلام کو اس پر محمول کیا جائے گا کہ اس نے جنین کے مال کو ضائع کیا ہوگا، اسی لئے دَین کا اقرار کر رہا ہے، لہٰذا اقرار بالدَین درست ہے۔ اور امام ابو یوسفؒ فرماتے ہیں کہ جنین کے لئے اقرار بالدَین کرنے سے مقِر یعنی اقرار کرنے والے پر کوئی شی ٔ واجب نہیں ہوگی، کیوںکہ یہ ظاہرِ حال، اظہر کا مقابل ہے ، اور وہ یہ ہے کہ کوئی عاقل، بالغ مسلمان کسی کا مال ضائع نہیں کرتا، کیوںکہ یہ معصیت ہے۔(۱۸){اَلأَصْلُ أَنَّہٗ قَدْ یَثْبُتُ الشَّيئُ َتبْعاً وَحُکْمًا وَإنْ کَانَ قَدْ یَبْطُلُ قَصْداً} ترجمہ: اصل یہ ہے کہ کبھی کوئی شیٔ قصداً باطل ہو تی ہے، مگر کبھی حکماً ثابت ہوجاتی ہے۔مثال: بیعِ عبد میں اس کے اعضاء ، بیعِ دار میں اس کا صحن ، اور بیعِ ارض میں اس کا شِرْب یعنی سیرابی کی باری تبعاً داخل ہے،جب کہ محض اعضاء ،صحن اورشِرب کی بیع قصداً واستقلالاً درست نہیں ہے۔(۱۹) {الأصْلُ أَنَّہٗ قَدْ یَثْبُتُ مِنْ جِہَۃِ الْفِعْلِ مَا لا یَثْبُتُ مِنْ جِہَۃِ الْقَوْلِ کَمَا فِي الصَّبِيِِّّ} ترجمہ: اصل یہ ہے کہ کبھی فعلاً ایسی چیز ثابت ہو تی ہے، جو قولاً ثابت نہیں ہوتی، جیسے بچہ کے حق میں ۔