الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
الأشقر عن شرح القدوري للأخضب : إن عدم جواز الأخذ من خلاف الجنس کان في زمانہم لمطاوعتہم فی الحقوق، والفتوی الیوم علی جواز الأخذ عند القدرۃ من أي مال کان ، لا سیما في دیارنا لمداومتہم العقوق ، قال الشاعر (الطویل): عفائً علی ہذا الزمان فإنہ زمان عقوق لا زمان حقوق وکل رفیق فیہ غیر مرافقٍ وکل صدیق فیہ غیر صدوق (رد المحتار علی الدر المختار:۹/۲۲۱،کتاب الحجر، بیروت) قال الحصکفي : لیس لذي الحق أن یأخذ غیر جنس حقہ، وجوزہ الشافعي، وہو الأوسع ۔’’الدر المختار‘‘۔ وقال ابن عابدین رحمہ اللہ : قولہ: (وجوزہ الشافعي) قدمنا في کتاب الحجر: أن عدم الجواز کان في زمانہم ، أما الیوم فالفتوی علی الجواز ۔ (الدر المختار مع الشامي:۶/۶۰۶، کتاب الحظر والإباحۃ ، باب الاستبراء ، فصل في البیع، أحسن الفتاوی: ۷/۱۷۴،۱۷۵)مثال۳: شوہر غائب ہے اور بیوی کا نفقہ مثلاً ایک ہزار روپئے شوہر کے ذمہ باقی ہیں، اور گھر میں الماری کے اندر شوہر کی رقم موجود ہے تو عورت کو اختیار ہوگا کہ اس میں سے اپنے دینِ نفقہ کو لے لے۔قاعدہ(۲۹۵): {لِلإشَارَۃِ عُمُوْمٌ کَمَا لِلْعِبَارَۃِ} ترجمہ: اشارۃ النص ایساہی عام ہوتا ہے، جیسا کہ عبارت النص۔ (قواعد الفقہ:ص۱۰۳، القاعدۃ:۲۳۸)فائدہ:(۱) جو حکم عبارت النص سے ثابت ہو وہ ایسا حکم ہے، جس کے لئے کلام کولایا گیا ہو، اور مقصودِ کلام بھی اصلاً یا تبعاًوہی حکم ہو۔ (۲) اشارۃ النص وہ عبارت ہے جس سے ایسا حکم ثابت ہو، جس کے لئے کلام نہیں لایا گیا،بلکہ محض غور و فکر سے وہ حکم مفہوم ہو، جیسے عبارت النص عام ہوتا ہے، تخصیص کو قبول کرتا ہے، ایسے ہی اشارۃ النص بھی عام ہوتا ہے اور تخصیص کو قبول کرتاہے۔