الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
مثال تاویل: آ پ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے کہ جب آپ رکوع سے سرمبارک اٹھاتے ،تو ’’ سمع اللہ لمن حمدہ ، ربنا لک الحمد‘‘ کہاکرتے ۔ یہ حدیث امام وغیر امام دونوں کے لئے جمع بین الذِکرین پر دال ہے، پھر آپ کا یہ ارشاد کہ جب امام’’ سمع اللہ لمن حمدہ‘‘ کہے، تو تم لوگ ’’ ربنا لک الحمد ‘‘کہا کرو۔ یہ حدیث تقسیم عمل پر دال ہے کہ امام کا عمل ’’ سمع اللہ لمن حمدہ‘‘کہنا،اور مقتدی کا عمل ’’ربنا لک الحمد ‘‘ کہنا ہے ،اور چوںکہ تقسیم، شرکت کو ختم کرتی ہے ، اس لئے دونوں حدیثوں میں اس طرح تطبیق دی جائے گی کہ پہلی کا مصداق منفرد ہے کہ وہ دونوں کہے ،اور دوسری کا مصداق امام اور مقتدی دونوں ہیں کہ امام ’’ سمع اللہ لمن حمدہ‘‘ کہے، اور مقتدی ’’ ربنا لک الحمد ‘‘۔ امام صاحب ؒ سے منقول ہے کہ جمع بین الذِکرین نفل پڑھنے والے کے لئے ہے، اور دونوں میں سے ایک فرض پڑھنے والے کے لئے ۔نوٹ: مکتوبات امام ربانی مجدد الف ثانی ؒمیں مکتوب ہے کہ اصحابِ حنفیہ، قربِ عہد رسول اور حصولِ ورع و تقویٰ کے سبب،احادیثِ رسول کو ہم دور افتادگان کی بنسبت بہترطور پر سمجھتے ہیں،اورحدیث کی صحت اور اس کے سقم ، اس کے نسخ اور عدمِ نسخ کو یہ حضرات ہم سے زیادہ جانتے ہیں، اگر کسی مقام پر حدیثِ رسول کا ترک نظر آئے تو جان لو کہ ضرور ان کے نزدیک کوئی وجہ ترجیح موجود ہوگی ۔(۲۳) {اَلأَصْلُ أَنَّ کُلَّ عَقْدٍ لَہٗ مُجِیْزٌ حَالَ وُقُوْعِہٖ تَوَقَّفَ لِلإجازَۃِ وَإلَّا فلَا} ترجمہ: اصل یہ ہے کہ ہر وہ عقد جس کا بوقت وقوعِ عقد کوئی مجیز موجود ہو تو وہ اجازت پر موقوف ہوگا، ورنہ نہیں۔مثال: اگر کوئی شخص، صغیر نابالغ کا مال ثمنِ مثل کے عوض فروخت کردے تو یہ بیع ولی کی اجازت پر موقوف ہوگی،کیوں کہ ولی کو صغیر کے مال پرولایت حاصل ہو تی ہے،اس صورت میں عقد کے لئے مجیز موجود ہے ،اوراگر کوئی شخص صغیر کی بیوی کو طلاق دیدے، یا اس کے غلام کو آزاد کردے، یا اس