الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
قاعدہ(۲۹۹): {مَا تَعَذَّرَ الْوُقُوْفُ عَلٰی حَقِیْقَتِہٖ یُعْتَبَرُ فِیْہِ الْعَلامَۃُ} ترجمہ: جس چیز کی حقیقت پر اطلاع متعذر ہو، اس میں علامت کا اعتبار ہوتا ہے۔ (موسوعۃ القواعد الفقہیۃ:۹/۴۹)مثال: نقضِ وضو کی اصل علت ، سبیلین سے کسی چیز کا خارج ہونا ہے، اب بحالتِ نوم کوئی چیز خارج ہوئی یا نہیں ، اس پر وقوف متعذر ہے ، اس لیے نقضِ وضو میں علامت (نوم) ہی کا اعتبار کرکے اسے ناقضِ وضو قرار دیا گیا ۔ ’’ لیس الوضو ء علی من نام قائما أو قاعدا أو راکعا أو ساجدا، إنما الوضوء علی من نام مضطجعا، فإنہ إذا نام مضطجعا استرخت مفاصلہ ، جعل استرخاء المفاصل علۃ ، فیتعدی الحکم بہذہ العلۃ إلی النوم مستندا أو متکئا إلی شيء لو أزیل عنہ (ذلک الشيء) لسقط ‘‘ ۔ (أصول الشاشي:ص۱۴۸، البحث الرابع في القیاس ، الحسامي :ص۱۳۱، بحث القیاس)قاعدہ(۳۰۰): {مَا اجْتَمَعَ مُحَرِّمٌ وَمُبِیْحٌ إلَّا غُلِّبَ الْمُحَرِّمُ} قولہ صلی اللہ علیہ وسلم : ’’ ما اجتمع الحلال والحرام في شيء إلا غلب الحرام الحلال‘‘ ۔ (شرح السیر الکبیر:۲/۴، باب من الأمان الذي یشک فیہ)ترجمہ: محرِّم (وہ دلیل جو حرمت کو ثابت کرتی ہے) اور مبیح (وہ دلیل جو اباحت کو ثابت کرے) کے جمع ہونے پر محرِّم ہی کو غلبہ دیا جائے گا۔ (غمز عیون البصائر:۱/ ۳۳۷، قواعد الفقہ:ص۱۱۴، القاعدۃ:۲۸۵)مثال۱: جب دو دلیلیں باہم متعارض ہوں،ان میں سے ایک مقتضِی ٔ حرمت اور دوسری مقتضِی ٔاباحت ہو اور کوئی مرجح موجود نہ ہو تو محرِّم مقدم ہوگی۔مثال۲: حائضہ سے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’ لَکَ مِنَ الْحَائِضِ فَوْقَ الإزَارِ‘‘۔ (تیرے لئے حائضہ بیوی سے ازار کے اوپر کے حصۂ بدن سے استمتاع مباح ہے)،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسرا ارشاد:’’ إصْنَعُوْا کُلَّ شيئٍ إلَّا النِّکَاحَ‘‘۔’’کہ تم وطی کے سوا تمام حصۂ بدن سے استمتاع کرسکتے ہو‘‘ ۔