الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
البتہ دیگر اشیاء میں ربوا کا تحقق ہوگا یا نہیں، اس کے لئے نص محتاجِ تعلیل ہے، چنانچہ تحقق ربوا کے لئے احناف نے قدر وجنس کو علت قرار دیکر تمام مکیلات و موزونات میں ربوا کو ثابت کیا کہ جب وزنی یا کیلی شیٔ اپنے ہم جنس کے عوض فروخت ہو اور اس میں برابر سرابر کا لحاظ نہ رکھا گیا ہو، بلکہ کمی بیشی سے کام لیا گیا ہو تو ربوا کا تحقق ہوگا، اور اس طرح کی بیع شرعاً حرام ہوگی۔(۳۳){اَلأَصْلُ أَنَّہٗ یَجُوْزُ أنْ یَکُوْنَ أوَّلُ الاٰیَۃِ عَلَی الْعُمُوْمِ وَآخِرُہَا عَلَی الْخُصُوْصِ کَعَکْسِہٖ} ترجمہ: اصل یہ ہے کہ جائز ہے کہ اولِ آیت عموم پر ، اور آخر آیت خصوص پر محمول ہو، جیسا کہ اس کے بر عکس بھی جائز ہے،یعنی آخر آیت عموم اور اول آیت خصوص پر محمول ہو۔مثال: فرمانِ باری تعالیٰ:{وما کان لمؤمن أن یقتل مؤمنًا إلاَّخطأً ومن قتل مؤمناً خطأً فتحریر رقبۃٍ مؤمنۃٍ ودیۃٌ مُسَلَّمَۃٌ إلی أہْلِہٖ}’’اور کسی مومن کی شان نہیں کہ وہ کسی مومن کو قتل کرے لیکن غلطی سے اور جو شخص کسی مومن کو غلطی سے قتل کردے تو اس پر ایک مسلمان غلام کا یا لونڈی کا آزاد کرنا ہے اور خون بہا ہے جسے اس کے خاندان والوں کے حوالہ کردیا جائے‘‘۔(سورۂ نساء :۹۲) پھر آخر آیت میں اس شخص کے بارے میںجو دار الحرب میں مسلمان ہوا ،اور اس نے دار الاسلام کی طرف ہجرت نہیں کییہ فرمایا گیا:{فإن کان من قوم عدو لکم وہو مؤمن فتحریر رقبۃ مؤمنۃ}’’اور اگر وہ ایسی قوم سے ہو جو تمہاری مخالف ہے اور وہ شخص خود مومن ہے تو ایک مسلمان غلام یا لونڈی کا آزاد کرنا‘‘۔ (سورۂ نساء :۹۲) یہاں{ودِیۃ مسلمۃ إلی أہلہ}کا ذکر نہیں ہے، لہٰذا اولِ آیت عموم اور آخرِ آیت خصوص پر دال ہوگی، یعنی عموماً ہر مسلمان کو غلطی سے قتل کر نے کی صورت میں کفارۂ قتل ،یعنی مسلمان غلام یا باندی کا آزاد کرنا، اور دیت یعنی سو اونٹ یا ایک ہزار دینار یا دس ہزار درہم دونوں واجب ہوںگے، اور جو شخص دار الحرب میں مسلمان ہوا اور اس نے دار الاسلام کی طرف ہجرت نہیں کی، اگر وہ خطأً قتل کیا جائے تو صرف کفارۂ قتل ہی واجب ہوگا، دیت واجب نہیں ہوگی۔