الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
ٌقاعدہ(۳۷۱): {یُتَحَمَّلُ الضَّرَرُ الْخَاصُّ لِدَفْعِ الضَّرَرِ الْعَامِّ} ترجمہ: ضررِ عام کو دور کرنے کی خاطر، ضررِ خاص کوبرداشت کیا جائے گا۔ (الأشباہ والنظائر لإبن نجیم:ص۳۱۲ ، قواعد الفقہ:ص۱۳۹، القاعدۃ:۳۹۸ ، ترتیب اللآلي:ص۱۱۶۷، شرح القواعد:ص۱۹۷، درر الحکام :۱/۴۰ ، المادۃ :۲۶)مثال: ایک شخص پیشۂ طبابت سے منسلک ہے، مگر اس فن سے بالکل ناواقف ہے، اگر ہم حکومت وقت کو اس کی اطلاع کرتے ہیں،تو حکومت اس شخص کے پیشہ ٔ طبابت پر پابندی عائد کردے گی، جس سے اس کا ذریعۂ آمدنی بند ہوجائیگا ، اورخود وہ اوراس کا پورا خاندان اس سے متأثر ہوگا(یہ ضرر خاص ہے)، اور اگر ہم حکومت وقت کو مطلع نہیں کرتے ہیں، تو اس کے اس پیشہ ٔ طبابت سے عوام الناس کی جان کو خطرہ لاحق ہوگا (یہ ضرر عام ہے)،لہذا ضرر عام کو دور کرنے کے لئے ضرر خاص کو برداشت کرتے ہوئے حکومت کو مطلع کیا جائے گا۔ٌقاعدہ(۳۷۲): {یَتَکَرَّرُ الْجَزَائُ بِتَکَرُّرِ الشَّرْطِ} ترجمہ: تکرارِ شرط کے سبب جزا بھی متکرر ہوتی ہے۔ (قواعد الفقہ:ص۱۳۹، القاعدۃ:۳۹۹،الأشباہ والنظائر)مثال: کسی آدمی نے اپنی بیوی سے کہا: جب جب تو گھر میں داخل ہوگی توتجھے طلاق ہے، شوہر کے اس کلام کے بعد عور ت گھر میں داخل ہوئی تو ایک طلاق واقع ہوگی ، پھر داخل ہوئی تو دوسری طلاق واقع ہوگی، پھر داخل ہوئی تو تیسری طلاق واقع ہوگی، کیوں کہ تکرارِ شرط(دخولِ دار) تکرار جزا(وقوعِ طلاق)کو مستلز م ہے، اب تین طلاق واقع ہونے کے بعد بیوی شوہر کے لیے حرام ہوگئی ، البتہ جب یہ عورت زوجِ ثانی سے نکاح کرکے دوبارہ زوجِ اول کے نکاح میں آئے ،اور دخولِ دار پایا جائے تو کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی ، کیوں کہ شرط کا تعلق نکاحِ اول سے تھا،نہ کہ اس نکاحِ ثانی سے۔الفاظِ شرط یہ ہیں : (۱)إن(۲) إذا(۳) إذا ما(۴)کلٌّ(۵)کلّما(۶) متٰی(۷) متٰی ما۔ (قدوري:ص۱۷۴)