الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
سواء ہر حصۂ بدن سے استمتاع کی حلت معلوم ہورہی ہے، اور قاعدۂ فقہیہ ہے کہ جب حرام وحلال کا اجتماع ہو تو حرام کو غلبہ دیا جاتا ہے، لہذا احتیاطاً محرّم کو غلبہ دیا جائے گا۔ (غمز عیون البصائر:۱/۳۳۷)قاعدہ(۱۹): {إذا اجْتَمَعَ الْمُبَاشِرُ وَالْمُتَسَبِّبُ یُضَافُ الْحُکْمُ إلَی الْمُبَاشِرِ} ترجمہ: جب مباشر اور متسبب کا اجتماع ہو تو حکم مباشر کی طرف منسوب ہوگا۔ (الأشباہ النظائر:ص۵۰۲، ترتیب اللآلي:ص۲۸۲، القواعد الفقہیۃ:ص۱۴۴، ۳۴۸ ، قواعد الفقہ:ص۱۵، رقم القاعدۃ:۱۵، شرح القواعد:ص۴۴۷، جمہرۃ القواعد:۲/۶۰۴، رقم القاعدۃ:۱۵۴، درر الحکام:۱/۹۱، رقم المادۃ:۹۰، القواعد الکلیۃ والضوابط الفقہیۃ:ص۳۱۷)فائدہ: براہِ راست فعل کے کرنے والے کو مباشر اور سبب بننے والے کو متسبِّب کہا جاتا ہے۔مثال۱: زید نے چور کو کسی کے مال کا پتہ بتا دیا کہ وہ فلاں مقام پر ہے اور چورنے اسے وہاں سے چرا لیا ،تو چور ضامن ہوگا؛ کیوںکہ وہ مباشر ہے ، زید ضامن نہیں ہوگا، اس لئے کہ وہ متسبِّب ہے۔مثال۲: دو شخص راستے سے جارہے ہوں ، اور ایک دوسرے کو ڈھکیل دے،جس کی وجہ سے وہ گرپڑا ، یا ایک نے دوسرے کو راستے پر پکڑ کر رکھا اور کوئی گاڑی آگئی ، جس نے شخص مذکور کو کچل دیااور وہ مرگیا ،تو اب ڈرائیور پر بقدرِ نقصان ضمان لازم ہوگا، اور ڈھکیلنے یا راستے پر پکڑ کر رکھنے والے شخص کو تعزیر کی جائے گی ، یا پھر قید میں ڈالا جائے گاحتی کہ وہ بھی مرجائے ،کیوں کہ ڈرائیور مباشرہے اورڈھکیلنے یا روکنے والا شخص متسبِّب ہے ۔ (فقہ النوازل:۳/۴۶۸، وثیقۃ رقم ۳۳۲)قاعدہ(۲۰): {إذَا زَالَ الْمَانِعُ عَادَ الْمَمْنُوْعُ} ترجمہ: جب مانع زائل ہو تو ممنوع لوٹ آتاہے۔ (درر الحکام:۱/۳۹، رقم المادۃ:۲۴، ترتیب اللآلي:ص۲۸۰، القواعد الفقہیۃ:۳۵۲، قواعد الفقہ:ص۷۵، رقم المادۃ:۲۲، شرح القواعد:ص۱۹۱، القواعد الکلیۃ والضوابط الفقہیۃ:ص۲۲۳)مثال۱: اگر کسی کا نابالغ ہونا اس کے قبولِ ادا ئِ شہادت کے لئے مانع تھا، تو بالغ ہونے کے بعد اس کی شہادت قبول ہوگی۔