الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
’’إذا سمعتم بالطاعون بأرض فلا تدخلوہا وإذا وقع بأرض وأنتم بہا فلا تخرجوا عنہا‘‘۔ (بخاری) سے معلوم ہو رہا ہے۔ (۱۱) (الف) اگر کچھ لوگ اپنی ضروریات سے باہر گئے ہوئے ہیں اور پھر طاعون کی صورت حال پیدا ہوگئی ہے اور اب کے قیام کی نہ ضرروت ہے نہ ممکن ہے، پھر ان کے گھر اہل وعیال، سب اس طاعون زدہ علاقہ میں ہیں، اہل وعیال کو ان کی ضرورت ہے، نیز گھر، کاروبار کو بھی ان کی نگہداشت کی ضرورت ہے تو ایسے لوگ طاعون زدہ علاقہ میں داخل ہوسکتے ہیں ، نیز یقینی کے رفع کے واسطے ضرر مشکوک پر نظر نہیں کی جائے گی۔ (امداد الفتاوی:۴/۲۸۴) (ب) باہر سے کسی ضرورت سے آئے ہوئے لوگ جن کا کام ختم ہوچکا ہے ، یا اب ختم ہو رہا ہے اگر ان لوگوں نے اس طاعون زدہ مقام کو اپنا وطن اقامت نہیں بنایا تھا تو انہیں خروج کی اجازت ہوگی۔ اس لئے کہ ’’نہی عن الخروج‘‘ کا تعلق مقیمین سے ہے نہ کہ مسافروں سے۔ (امدا دالفتاوی:۴/ ۲۸۲) (ج) اسی طرح وہ شخص جس کی نگہداشت یا تیمارداری کا انتظام نہیں ہورہا ہے کسی وجہ سے دوسری جگہ اس کی ضرورت ہے تو چوںکہ اس صورت میں، علت ذباب طاعون نہیں ہے اس لئے خروج جائز ہوگا۔محور سوم (۱) (الف) اگر نوجوان اپنا یہ عیب چھپا کر اس خاتون سے نکاح کررہا ہے، اور ڈاکٹر کو یقین ہے کہ اگر اس خاتون کو نوجوان کے اس عیب کا علم ہوجائے تو ہرگز یہ رشتہ کرنے کو راضی نہیں ہوگی تو ایسی صورت میں داکٹر کے لئے واجب نہیں مگر بہتر ضرور ہے کہ وہ اس خاتون یا اس کے گھروالوں کو نوجوان کے اس عیب کی اطلاع کردے۔ (ب) لڑکی یا اس کے گھروالو ں کو کسی بھی طرح یہ پتہ چلا کہ نوجوان فلاں ڈاکٹر سے اپنی آنکھ کا علاج کروارہا ہے اور لڑکی یا اس کے گھر والے ڈاکٹر سے معلومات کرنے کے لئے ڈاکٹر کے پاس آئیں تو ڈاکٹر کی یہ ذمہ داری ہے وہ انہیں اس عیب سے باخبر کرے۔ ’’ فقال : أما أبو الجہم فلا یضع عصاہ عن عاتقہ ، وأما معاویۃ فصعلوک لا مال لہ ، انکحي أسامۃ ‘‘۔ (بخاری)