الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
قاعدہ(۸۵): {اَلتَّخْلِیَۃُ تَسْلِیْمٌ} ترجہ: تخلیہ تسلیم ہے۔ (الأشباہ والنظائر لإبن نجیم :ص۲۹۶، قواعد الفقہ:ص۶۹، القاعدۃ:۸۰ ، رد المحتار:۷/۷۳، بدائع الصنائع:۷/۲۳۷، فصل في حکم البیع، ایضاح النوادر:۶۶)مثال۱: بائع، مبیع اور مشتری کے درمیان تخلیہ کردے تو یہی تخلیہ تسلیمِ مبیع شمار ہوگا، بشرطیکہ مبیع مشتری کے سامنے اس حال میں ہوکہ اگر وہ اسے لینا چاہے تو بلا روک ٹوک لے سکے اور بائع یوں کہہ دے کہ میں نے تیرے اور مبیع کے درمیان تخلیہ کردیا،نیز مبیع علیٰحدہ ہواور حقِ غیر کے ساتھ مشغول نہ ہو۔ (الأشباہ والنظائر لإبن نجیم :ص۲۹۶)مثال۲: کسی شئ پر قبضہ کا مطلب شریعت میں یہ نہیں، کہ حقیقی معنیٰ میں بائع مبیع کو مشتری کے یہاں منتقل کردے، بلکہ اس کے لئے صرف اتنا کافی ہے کہ مبیع کو اپنے مال سے اس طور پر الگ کردے، کہ مشتری جب چاہے اسے اپنی مرضی سے اٹھاکر لے جائے ، یا اس میں کوئی تصرف کرے،اور اس سلسلے میں اس پر کسی طرح کی کوئی رکاوٹ نہ آئے،تو اب اس مبیع پر مشتری کا قبضہ تسلیم کرلیا جائے گا، لہذا اس کے لئے کسی دوسرے کے ہاتھ اس کو فروخت کرنا شرعاً جائز ہوجائے گا،مگر اس علیٰحدہ (تخلیہ)کرنے میں قدرے تفصیل ہے، چونکہ اب اس طرح کی بیع بکثرت ہونے لگی ہے، اور لوگ اس طریقہ کار کو شرعی طور پر نہیں کرتے ہیں، اس لئے ہر صورت کا حکم مختصراً علیحدہ علیحدہ ذکر کیا جارہا ہے۔ ۱- کیلی اشیاء یعنی کسی مخصوص پیمانے یا برتن سے ناپ کر بیچی جانے والی اشیاء :جیسے دودھ، تیل وغیرہ کو ناپ کرکے الگ کرنا ، مشتری کے قبضے کے ثبوت کے لئے کافی ہوجائے گا، جیسے فون پر بات ہوئی اور مشتری نے کہا: بندے کو دس لیٹر دودھ چاہیے، اور بائع نے اس کو قیمت وغیرہ بتلاکر پکی بات کرکے، اس کو ناپ کرکے الگ کردیا،تو الگ کرتے ہی اس پر مشتری کا قبضہ شمار ہوگا، اب مشتری اس چیز کو کسی دوسرے سے بھی فروخت کرسکتا ہے۔