الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
جب دراہم سے جنیب خرید ی جائیں گی، تو جنس مختلف ہونے کی وجہ سے تفاضل جائز ہوگا ،نیز یہ حدیث اس بات پر بھی دال ہے کہ غرضِ صحیح کے لیے حیلہ کو اختیار کرنا جائز ہے، بلکہ خود نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم نے طریقۂ حیلہ تعلیم فرمایا ۔ ( انعا م البا ری: ۶/۳۷۵) وعن أبي ہریــرۃ : أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم استعمل رجلا علی خیبر فجاء ہ بتمر جنیب ، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ’’ أکُلُّ تمرخیبرہکذا؟‘‘ قال : لا واللّہ یا رسول اللہ ، إنا لنأخذ الصّاع من ہذا بالصّاعین والصّاعین بالثلاثۃ ، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ’’ لا تفعل بعِ الجَمُعَ بالدراہم ثمّ ابتع بالدراہم جنیباً ‘‘۔ (صحیح البخاري:۱/۲۹۳، سنن النسائي:۲/۱۹۲)قاعدہ(۱۱۷): {اَلْحَاجَۃُ تَنْزِلُ مَنْزِلَۃَ الضَّرُوْرَۃِ عَامَّۃً أوْ خَاصَّۃً} ترجمہ: حاجت ضرورت کا درجہ اختیار کرتی ہے، خواہ وہ عام ہو یا خاص۔ (الأشباہ والنظائر لإبن نجیم :ص۳۲۶ ، الأشباہ للسوطي:۱/۱۹۰، الأشباہ لإبن الملقن:۲/۳۴۶،قواعد الفقہ:ص۷۵، القاعدۃ:۱۰۸، ترتیب اللآلي:ص۶۲۵، القواعد الفقہیۃ:ص۱۰۷، ۱۰۹، شرح القواعد:ص۲۰۹، درر الحکام:۱/۴۲ ، المادۃ:۳۲ ، القواعد الکلیۃ:ص۲۱۵)مثال: بیعِ سلم میں مبیع معدوم ہوتی ہے، اس لئے قیاس تو یہ ہے کہ وہ جائز نہ ہو،کیوںکہ معدوم کی بیع شرعاً درست نہیں،لقولہ علیہ السلام : ’’ لا تبع ما لیس عندک‘‘۔ مگر مفلِسوں کی حاجت روائی کے لئے اس کو جائز قرار دیا گیا۔ (الأشباہ:ص۱۱۵)قاعدہ(۱۱۸): {اَلْحَاجَۃُ تُوْجِبُ الإنْتِقَالَ إلَی الْبَدلِ عِنْدَ تَعَذُّرِ الأصْلِ} ترجمہ: تعذّرِ اصل کے وقت حاجت، انتقال الی البدل کو واجب کرتی ہے۔ (جمہرۃ:۱/۷۰۹، رقم:۷۳۱)مثال۱: کسی شخص کو نکاح کی ضرورت ہو اور وہ مہر، نفقہ وغیرہ کی استطاعت نہ رکھنے کی وجہ سے