الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
(۱) {الأصْلُ إذَا مَضیٰ بِالإجْتِہَادِ لَا یَفْسَخَ بِإجْتِہَادِ مِثْلِہٖ وَیَفْسَخُ بِالنَّصِ} ترجمہ : اصل یہ ہے کہجب کسی عمل کو اجتہاد سے کیا تو وہ عمل اسی کی مانند اجتہاد سے فسخ نہیں ہوگا، بلکہ نص سے فسخ ہوگا۔وجہ : جس عمل کو اجتہاد سے کر لیا گیا وہ مؤکد بالعمل ہو چکا ،اور دوسرا اجتہاد ابھی مؤکد بالعمل نہیںہوا، لہذا پہلا دوسرے کی بنسبت قوی ہے اوردوسرا ضعیف، اور ضعیف قوی کو منسوخ نہیں کرسکتا،ہاں! اگر دوسری دلیل، نص ہو تو اجتہاد منسوخ ہوگا ’’ لأن العمل یجب بالقوي دون الضعیف‘‘۔ (رحمانی)مثال : پاک اور ناپاک کپڑے باہم ایسے مل گئے کہ تمیز ناممکن ہو، اور ان کپڑوں کے علاوہ کوئی دوسرا کپڑا موجود نہ ہو جسے پہن کر نماز ادا کرکے فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم : ’’ دع ما یریبک إلی ما لا یریبک‘‘( شیٔ مشکوک کو چھوڑ کر غیرِ مشکوک کو اختیا کرو)پرعمل کیا جاسکے، تو ایسی صورت میں ایک مسلمان کے لیے حکم یہی ہے کہ ان اثوابِ مختلطہ میں تحری کرلے، اور جس کپڑے کے پاک ہونے پرتحری واقع ہو، اسے پہن کر نماز پڑھ لے۔ جس کپڑے کو پہن کر نمازِ ظہر اداکی تھی، عصر میں تحری اس کے خلاف واقع ہو، تو اس مجردتحری سے پہلی تحری مؤکد بالعمل فسخ نہیں ہوگی، اور حکم یہی ہوگا کہ ظہر والا کپڑا پہن کر ہی دوسری نمازیں ادا کرتا رہے، یہاں تک کہ وہ نجس نہ ہو یا اس کے علاوہ غیر مشکوک کپڑا دستیاب نہ ہو۔(۲) {اَلأَصْلُ أَنَّ الإِجَازَۃَ تَصِحُّ ثُمََّ تَسْتَنِدُ إلٰی وَقْتِ الْعَقْدِ} ترجمہ : اصل یہ ہے کہ اجازت صحیح ہوتی ہے، پھر وقتِ عقد کی طرف منسوب ہوتی ہے ۔مثال : صحتِ بیع کے لئے شرط یہ ہے کہ محل بیع یعنی مبیع فی الحال عقد بیع کو قبول کرنے والی ہو، تاکہ بحالت اجازت اس میں حکم بیع ،یعنی مبیع کا بائع کی ملک سے نکل کر مشتری کی ملک میں داخل ہوناثابت ہو اور یہ حکمِ بیع وجود عقد کی طرف منسوب ہو، چنانچہ اگر محل بیع، بوقت بیع موجود نہ ہو تو عقد بیع اجازت دینے سے نافذ نہ ہوگا، اسی طرح اگر بوقت اجازت مریض مرض الموت میں ہو اور عقد بحالت