الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
(۱۴){اَلأَصْلُ أَنَّ الشَّيئَ یُعْتَبَرُ مَا لَمْ یَعُدْ عَلٰی مَوْضُوْعِہٖ بِالنَّقْضِ وَالإبْطَالِ} ترجمہ: اصل یہ ہے کہ شی ٔاس وقت تک معتبر ہوتی ہے ، جب تک کہ وہ اپنے موضوع پر نقض و ابطال کے ساتھ نہ لوٹے۔مثال: عبد محجور ایک معینہ مدت تک اپنے آپ کو اجرت پردیدے، اس کا یہ عقد اجارہ حق مولیٰ سے ضرر کو دور کرنے کے لئے درست نہیں ہوگا، مگر مضیِّ مدت اورتکمیل عمل کے بعد بھی اگر ہم فسادِ عقد کا حکم لگاتے ہیں تو اس سے مولیٰ کا نقصان لازم آئے گا کہ غلام کے منافع بلاکسی بدل کے دوسرے نے حاصل کئے۔ تو یہاں دفع ضرر مولیٰ کی بناء پر ضروری ہوا کہ عقداجارہ کو صحیح قرار دیا جائے ،تاکہ مولیٰ بدل منافع کا حقدار ہو،اور اگر ہم عقد اجارہ کو فاسد قرار دیتے ہیں تو بجائے دفع ضرر کے تحقق ضرر لازم آئیگا، اورعقد کو فاسد کرنا بجائے نظر وشفقت کے ضرر و نقصان کا باعث ہوگا۔(۱۵) { اَلأَصْلُ أَنَّ الضَّمَانَاتِ فِي الذِّمَّۃِ لا تَجِبُ إلَّا بِأَحَدِ الْأمْرَیْنِ إِمَّا بِأَخْذٍ أَوْ بِشَرْطٍ فَإِذَا عَدِمَا لَمْ تَجِبْ} ترجمہ: اصل یہ ہے کہ ضمان وتاوان انسان کے ذمہ دو باتوںمیں سے کسی ایک کے پائے جانے پر واجب ہوتا ہے، یا تو اخذ (لینے) کے سبب یا شرط کے سبب؛ چنانچہ جب دونوں معدوم ہوں توضمان واجب نہیں ہوگا۔مثال: کسی کے مال کو غصب کرنا، رہن پرقبضہ جمالینا؛ کسی کو گواہ بنائے بغیر راستہ پرگری پڑی چیز کو اٹھالینا؛( یہ سب اخذ کی مثالیں ہیں) اور عقد کو قبول کرنا، جیسے خرید و فروخت، عقد کفالہ وغیرہ؛ (یہ شرط کی مثالیں ہیں)۔(۱۶){الأَصْلُ أَنَّ الظَّاہِرَ یَدْفَعُ الاِسْتِحْقَاقَ وَلا یُوْجِبُ الاسْتِحْقَاقَ} ترجمہ: اصل یہ ہے کہ ظاہر دافع استحقاق ہوتا ہے،نہ کہ موجبِ استحقاق۔