الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
مثال۲: عبدِمکاتب کی بیع ، بیعِ فاسد ہے، اگرچہ مکاتب اس بیع پر راضی ہو ۔ (ہدایۃ:۲/۵۰، باب بیع الفاسد)مثال۳: بہت سی جگہوں پر یہ معاملہ عام ہے کہ مادہ جانور کو ادھیاء پر دیتے ہیں ،اور اس کا دودھ اور ہونے والا بچہ دونوں کے مابین برابر تقسیم کرتے ہیں، شرعاً یہ اجارہ فاسد ہے، گرچہ متعاقدین اس پر راضی ہوں ، البتہ جواز کی صورت یہ ہے کہ جس شخص کا جانور ہے وہ اس کی بازاری قیمت لگا کر اس کا نصف حصہ فریق آخر کے ہاتھ بیچ دے، پھر اس قیمت کو معاف کردے، اب یہ دونوں اس جانور میں برابر کے شریک ہوں گے، اور اس کی کل منفعت دودھ اور بچے وغیرہ بھی ان دونوں کے درمیان مشترک ہوں گے، اور اگر وہ اس جانور یا اس سے حاصل بچوں کو فروخت کریں گے، تو قیمت میں بھی دونوں نصف نصف کے حقدار ہوں گے ۔ (الفتاوی الہندیۃ:۲/۳۳۵، فتاوی قاضیخان علی ہامش الہندیۃ:۲/۳۳۰، فتاوی محمودیہ :۱۶/۵۹۴، ایضاح النوادر : ص۱۲۱ )قاعدہ(۲۰۲): {اَلْعَقْدُ الْفَاسِدُ یُفِیْدُ الْمِلْکَ عِنْدَ الْقَبْضِ} ترجمہ: عقدِ فاسد قبضہ کی صورت میں مفیدِ ملک ہوتا ہے۔ (جمہرۃ:۲/۷۸۳ ، رقم المادۃ:۱۲۰۶، درر الحکام :۱/۱۰۸، المادۃ:۱۰۹)مثال: ہوا میں پرندے کی بیع ، تالاب میں مچھلیوں کی بیع اور تھن میں دودھ کی بیع،غیر مقدور التسلیم ہونے اور غررکے پائے جانے کی وجہ سے عقدِ فاسد ہے، لیکن اگر مشتری ان پر قبضہ کرلے ، تو یہ عقدِ فاسد اس کے لیے مفیدِ ملک ہوگا۔ (قدوری:ص۷۸، باب البیع الفاسد،الموسوعۃ الفقہیۃ: ۹/۹۸، شامی: ۷/۱۶۹، ہدایہ: ۲/۶۲، فصل فی أحکامہ)قاعدہ(۲۰۳): {اَلْعُقُوْدُ کُلُّہَا تَفْسُدُ بِالإکْرَاہِ} ترجمہ: تمام عقود ومعاملات بصورتِ اکراہ فاسد ہوتے ہیں۔ (جمہرۃ القواعد الفقہیۃ:۱/۷۸۸، رقم :۱۲۴۰)