الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
قاعدہ(۳۱): {اَلأصْلُ إضَافَۃُ الْحَادِثِ إلٰی أقْرَبِ أوْقَاتِہٖ} ترجمہ: قاعدہ یہ ہے کہ حادث (نئی پیش آنے والی شی ٔ) اپنے قریب ترین وقت کی طرف منسوب ہوتا ہے۔ (شرح السیر الکبیر:۴/۱۲۱، باب الوکالۃ في الفداء المأسور، ترتیب اللآلي :ص۳۳۰ ، قواعد الفقہ:ص۵۸، القاعدۃ:۲۹، شرح القواعد:۱۲۵، درر الحکام؛۱/۲۸، المادۃ:۱۱، القواعد الکلیۃ والضوابط الفقہیۃ: ص۱۵۵)مثال۱: کسی آدمی نے اپنے کپڑے پر نجاست لگی دیکھی، درانحالانکہ وہ اسی کپڑے کو پہن کر نماز پڑھ چکا ہے اور یہ معلوم نہیں کہ نجاست کب لگی، تووہ آخری حدث (بے وضو ہونا) کے وقت سے نمازوں کا اعادہ کرے۔مثال۲: اگر کسی آدمی نے ظہر کی نماز کے بعد اپنے کپڑوں پر منی لگی دیکھی ، تو اسے اقربِ نوم کی طرف پھیرا جائے گا، اگر وہ ظہر سے پہلے سویا تھا تو سمجھا یہ جائے گا کہ وہ اسی وقت سے جنبی ہے، اور اس پر بعد از غسل نماز ظہر کا اعادہ واجب ہوگا۔اور اگر ظہر سے پہلے نہیں سویا تھا تو اسے فجر سے پہلے کی نیند کی طرف منصرف کیا جائے گا، اور بعد از غسل اس پر فجر وظہر دونوں نمازوں کااعادہ واجب ہوگا۔مثال۳: متوفی عنہا زوجہا نے اس بات کا دعوی کیا کہ اس کو اس کے شوہر نے حالتِ مرض الموت میں طلاق دی ، اور وہ اس کی وارث ہے، اور ورثاء یہ دعوی کریں کہ شوہر نے حالتِ صحت میں طلاق دی تھی، لہذا وہ وارث نہیں ہے، تواس صورت میں زوجہ کا قول معتبر ہوگا، اور طلاق مرض الموت کی طرف منسوب ہوکر عورت مستحقِ ارث ہوگی۔ (القواعد الکلیۃ والضوابط الفقہیۃ:ص۱۵۵)فائدہ: غالب الہلاک حالت میں شوہر کا اپنی بیوی کو طلاقِ بائن یا تین طلاقیں دینا ’’طلاقِ فار‘‘ ہے۔قاعدہ(۳۲): {اَلأصْلُ بَرَائَ ۃُ الذِّمَّۃِ} ترجمہ: اصل آدمی کا بریٔ الذمہ ہونا ہے۔ (الأشباہ والنظائر لإبن نجیم:ص۲۳۱، الأشباہ والنظائر للسیوطي:۱/۱۲۰، درر الحکام:۱/۲۵، المادۃ:۸ ، القواعد الکلیۃ والضوابط الفقہیۃ:ص۱۴۶، ترتیب اللآلي:ص۳۱۸ ، القواعد الفقہیۃ:ص۲۱، ۳۱۸ ، قواعد الفقہ:ص۵۸، القاعدۃ:۳۰ ، شرح القواعد؛ص۱۰۵)